السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بعض اوقات ایسا ہو تا ہے کہ نماز مغرب کے بعد مطلع ابر آلود ہو تا ہے ، معمولی بوندا بانی بھی ہوتی ہے ، گھنے بادل چھائے ہوتے ہیں ، زیادہ بارش آنے کا امکان ہوتا ہے ، ایسے حالات میں نماز مغرب کے ساتھ نماز عشا پڑھنے کی اجازت ہے ،کیا ایسا کرنا شرعاً جائز ہے ، کتاب و سنت کی روشنی میں جواب دیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہر نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا ضروری ہے ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا کہ تم نے نماز کو بر وقت ادا کرنا ہے۔[1]
اگر کوئی عذر ہو تو ایک نماز ک و دوسری نماز کے وقت میں جمع کیا جا سکتا ہے۔ اس کی دو صورتیں ہیں۔
1۔ پہلی نماز کے وقت میں دوسری نماز کو ادا کرنا اسے جمع تقدیم کہتے ہیں ، جیسا کہ مغرب میں عشا پڑھنا یا ظہر کے وقت عصر پڑنا
2۔ دوسری نماز کے وقت پہلی نماز پڑھنا مثلاً عشاء کے وقت مغرب پڑھنا یا ظہر کو مؤخر کر کے عصر کے وقت میں ادا کرنا اسے جمع تاخیر کہتے ہیں۔
جمع کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ ظہر کو آخری وقت اور عصر کو اول وقت بایں طور پر پڑھنا کہ دونوں بظاہر جمع ہو جائیں اس کو جمع صوری کہتے ہیں لیکن یہ انتہائی مشکل ہے کیونکہ آخری وقت اور پہلے وقت کے اتصال کا پتہ چلانا، اس کا انتظار کرنا پھر اپنے اپنے صحیح وقت میں دونوں کو جمع کرنا، اس میں سہولت کے بجائے بہت زیادہ حرج ہے ، بہر حال کسی عذر کی بنا پر دو نمازوں کو جمع کیا جا سکتا ہے، وہ عذر سفر، مرض، خوف، بارش اور کوئی بھی ہنگامی ضرورت ہو سکتی ہے۔مثلاً دونوں نمازوں کے لیے الگ الگ وضو کرنے میں دَقت ہو یا کسی جگہ کسی اجتماعی معاملے پر گفتگو ہو رہی ہو اور درمیان میں وقفہ کرنا مناسب نہ ہو یا کوئی ڈاکٹر لمبا نازک آپریشن کر رہا ہو وغیرہ تو ایسے حالات میں دو نمازوں کو جمع کیا جا سکتا ہے اگر موسم خراب ہو اور بارش آنے کا قوی امکان ہو تو پھر ایسے مقام جہاں دوران بارش مسجد میں آنا دشوار ہو تو ایسے حالات میں مغرب کے ساتھ پڑھنے میں حرج نہیں۔ چنانچہ جب اصحاب اقتدار بارش کی وجہ سے مغرب اور عشا کی نمازیں جمع کر تے تو حضرت عبد اللہ بن عمر علیہ الصلاۃ والسلام بھی ان کے ساتھ ان نمازوں کو جمع کر لیتے تھے۔ [2]
بہر حال تیز بارش کی وجہ سے نمازوں کو جمع کیا جا سکتا ہے ، اس میں کوئی حرج نہیں ہے ، صحیح مسلم کی روایات میں بھی اسی کا اشارہ ملتا ہے۔ [3]
[1] صحیح مسلم، المساجد:۶۴۸۔
[2] موطا امام مالک ، قصرالصلوٰۃ، باب الجمع بین الصلاتین۔
[3] صحیح مسلم، صلوٰۃ المسافرین:۱۶۳۳۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب