السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جب امام رکوع سے فراغت کے بعد سمع اللہ لمن حمدہ کہتا ہے تو کیا مقتدی کو بھی سمع اللہ لمن حمدہ کہنا چاہیے یا وہ صرف ربنا ولک الحمد پر اکتفا کرے گا، کتاب و سنت کی روشنی میں اس امر کی وضاحت کریں۔ ہمارے ہاں اہل علم کا کچھ اختلاف ہے، راجح موقف کی نشاندہی کردیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
محدثین کی اصطلاح میں سمع اللہ لمن حمدہ کہنے کو تسمیع اور ربنا ولک الحمد کو تحمید کہا جا تاہے ۔ عام طور پر نمازی کی تین حالتیں ہو تی ہیں: امام ، مقتدی اور منفرد ، محدثین کا موقف ہے کہ امام ، مقتدی اور منفرد تینوں حضرات تسمیع اور تحمید میں شریک ہوں ۔ احادیث کے عموم کا یہی تقاضا ہے۔ علامہ شوکانی نے امام شافعی،امام مالک، عطا بن ابی رباح، ابو داؤد، ابو بر دہ، محمد بن سیرین، اسحاق بن راھویہ اور امام داؤد رحمۃ اللہ علیہم کا یہی موقف بیان کیا ہے۔ [1] امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا میلان بھی اسی طرف ہے۔ چنانچہ آپ نے اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: امام اور مقتدی جب رکوع سے سر اٹھائیں توکیا کہیں ۔ [2]
پھر آپ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تو اللھم ربنا ولك الحمد بھی کہتے ۔[3]
ایک حدیث میں مزید وضاحت ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی بیان کر تے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو تکبیر تحریمہ کہتے پھر جب رکوع کر تے تو اللہ اکبر کہتے، رکوع سے اٹھتے وقت سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تو جب سیدھے کھڑے ہو جاتے تو ربنا ولک الحمد کہتے۔[4]البتہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب امام سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنا ولک الحمد کہو۔[5]اس حدیث سے بعض حضرات نے استنباط کیا ہے کہ مقتدی کو سمع اللہ لمن حمدہ نہیں کہنا چاہیے ،لیکن یہ استنباط کئی ایک اعتبار سے محل نظر ہے۔
اولاً: اس استنباط کا مطلب یہ ہے کہ امام کو ربنا ولک الحمد نہیں کہنا چاہیے ، حالانکہ ایسا کرنا صحیح احادیث کے خلاف ہے۔
ثانیاً:اس حدیث کا قطعاً یہ مقصد نہیں ہےکہ اس موقع پر امام اور مقتدی کو کیا کہنا چاہیے بلکہ صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ مقتدی ربنا ولک الحمد کب کہے یعنی وہ امام کے سمع اللہ لمن حمدہ کہنے کے بعد ربنا ولک الحمد کہے تاکہ یہ کلمات اس وقت کہنے سے گناہوں سے معافی کا اعزاز مل جائے کیونکہ اس وقت فرشتے بھی نمازیوں کے ساتھ یہ کلمات کہتے ہیں جیسا کہ ایک حدیث میں ہے’’جس کے یہ کلمات فرشتوں کے قول کے موافق ہو گئے اس کے سابقہ گناہ معاف ہو جا تے ہیں۔[6]
ثالثاً: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث میں بیان شدہ معاملہ درج ذیل حدیث کی طرح ہے جب امام غیر المغضوب علیہم ولا الضالین کہے تو تم آمین کہو کیونکہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق ہو گئی، اس کے سابقہ سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔[7]
اس حدیث کا قطعاً یہ مقصد نہیں ہے کہ مقتدی ولا الضالین نہ پڑھے بلکہ صرف آمین کہے یا امام ولا الضالین پڑھے اور آمین نہ کہے، بلکہ اس حدیث میں آمین کہنے کا وقت اور محل متعین کیا گیا ہے ۔ اس طرح درج بالا حدیث انس رضی اللہ عنہ کا مطلب ہے کہ مقتدی کو ربنا ولک الحمد اس وقت کہنا چاہیے جب امام سمع اللہ لمن حمدہ کہنے سے فارغ ہو جائے۔ اگرچہ امام ابو داؤد نے جناب عامر بن شرجیل کا موقف بایں الفاظ بیان کیا ہے کہ لو گوں کو امام کے پیچھے سمع اللہ لمن حمدہ نہیں کہنا چاہیے بلکہ وہ صرف ربنا ولک الحمد کہیں [8]لیکن ان شا اللہ پہلی بات ہی راجح اور عموم احادیث کے مطابق ہے۔ چنانچہ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
اس حدیث میں اس بات کی دلیل نہیں کہ مقتدی ، امام کے ساتھ سمع اللہ لمن حمدہ کہنے میں شریک نہ ہو، جیسا کہ اس سے یہ بھی ثابت نہیں ہو تا کہ امام ، مقتدی کے ساتھ ربنا ولک الحمد نہ کہے، کیونکہ یہ حدیث اس بات کو بیان کرنے کے لیے نہیں لائی گئی کہ اس موقع پر امام اور مقتدی کیا پڑھیں بلکہ حدیث کا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ مقتدی کا ربنا ولک الحمد کہنا امام کے سمع اللہ لمن حمدہ کے بعد ہونا چاہیے ۔ اس بات کی تائید اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امام ہونے کے حالت میں بھی ربنا لک الحمد کہتے تھے۔ اس طرح حدیث ’’صلو ا کما رأیتمونی‘‘کا بھی تقاضا ہے کہ مقتدی بھی امام کی طرح سمع اللہ لمن حمدہ کہے۔[9] علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے مزید لکھا ہے کہ جو اس مسئلہ میں زیادہ معلومات چاہتا ہے اسے علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کے رسالہ ’’دفع التشنیع فی حکم التسمیع‘‘ کا مطالعہ کرنا چاہیے جو الحاوی للفتاویٰ ص۵۲۹،ج۱ میں ہے۔ (واللہ اعلم)
ہم بطور تائید یہ حدیث بھی پیش کر تے ہیں جسے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے جب آپ سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تومقتدی بھی سمع اللہ لمن حمدہ کہتے، اگرچہ امام دار قطنی رحمۃ اللہ علیہ نے صراحت کی ہے کہ حدیث کے یہ الفاظ ثابت نہیں ہیں۔[10] علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مایہ ناز تصنیف ’’صفۃ الصلوٰۃ‘‘ میں اس مسئلہ پر سیرحاصل بحث کی ہے۔ [11]
[1] نیل الاوطار ، ص ۲۷۶،ج۲۔
[2] بخاری، الاذان،باب ۱۲۴۔
[3] صحیح بخاری، الاذان:۷۹۵۔
[4] بخاری، الاذان:۷۸۹۔
[5] صحیح بخاری، الاذان:۷۳۲۔
[6] صحیح بخاری، الاذان:۷۹۶۔
[7] بخاری، الاذان، ۷۸۲۔
[8] ابو داؤد، الصلوٰة: ۸۴۹۔
[9] حاشیه صفة الصلوٰة،ص۱۴۱۔
[10] سنن دار قطنی ،ص۳۳۹،ج۱۔
[11] ص۶۷۷،ج۲۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب