سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(54) باجماعت نماز کی ادائیگی

  • 20315
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-03
  • مشاہدات : 738

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 کیا نماز کی ادائیگی با جماعت ضروری ہے یا اسے گھر میں بھی ادا کیا جا سکتا ہے، اس سلسلہ میں واضح احکام کیا ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 اگر کوئی شرعی عذر نہ ہو تو ہر اذان سننے والے مرد پر مسجد میں حاضر ہو کر نماز باجماعت ادا کر نا ضروری ہے، اس کے وجوب کے متعلق کتاب و سنت میں متعدد دلائل موجود ہیں ، چنانچہ ارشادی باری تعالیٰ ہے:’’تم رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ ‘‘[1] (البقرۃ:۴۳)

اس آیت میں رکوع ادا کرنے والوں کے ہمراہ نماز ادا کرنے کا حکم ہے اور امر وجوب کے لیے ہو تا ہے، چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے :’’با جماعت نماز کے وجوب کا بیان‘‘[2] پھر انھوں نے اپنے موقف کی تائید میں امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کا قول پیش کیا ہے کہ ’’اگر کسی کی والدہ اس پر شفقت کر تے ہوئے یا کسی خطرہ کے پیش نظر با جماعت نماز عشا پڑھنے سے روکے تو وہ اپنی والدہ کی بات نہ مانے۔‘‘ اس کے بعد امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سلسلہ میں متعدد احادیث پیش کی ہیں، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں نے ارادہ کیا کہ چند نو جوانوں کو لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دوں، پھر نماز کے لیے اذان دینے کا حکم دوں، اس کے بعد کسی کو نماز پڑھانے کے لیے تعینات کروں پھر خود ان لو گوں کی طرف جاؤں جو نماز میں شریک نہیں ہو تے تاکہ انہیں ان کے گھروں سمیت جلا ڈالوں۔ ‘‘[3] ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اگر یہ بات نہ ہو تی کہ ان کے گھروں میں عورتیں اور بچے ہیں تو میں ان کے گھروں کو ضرور بھسم کر دیتا ۔‘‘ [4]

اس سلسلہ میں ایک دوسرے انداز سے بھی سخت وعید آئی ہے کہ ایسے شخص کی نماز نہیں ہوتی جو بلا وجہ گھر میں نماز پڑھتا ہے اور نماز با جماعت میں شریک نہیں ہو تا ، جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جو شخص اذان سنے پھر با جماعت نماز ادا نہ کرے تو اس کی کوئی نماز نہیں الا یہ کہ کوئی عذر رکاوٹ بن گیا ہو۔ ‘‘[5]

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’یہ ہمارے مشاہدے کی بات ہے کہ با جماعت نماز سے صرف ایسا منافق ہی پیچھے رہتاتھا جس کا نفاق واضح ہو تا تھا ، حتی کہ اگر کوئی آدمی بیمار ہو تا تو وہ دو آدمیوں کے درمیان سہارا لے کر چلتا اور با جماعت نماز میں شریک ہو تا۔[6]اور جن احادیث میں نماز با جماعت ادا کرنے کی فضیلت بیان ہوئی ہے ، ان سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اکیلے کی نماز صحیح ہے بلکہ واجب تو ہمیشہ غیر واجب سے اجر میں زیادہ ہی ہو تا ہے۔ البتہ عورتوں پر مسجد میں حاضر ہونا اور با جماعت نماز ادا کرنا فرض نہیں ہے بلکہ ان کا گھر میں نماز ادا کرنا ہی افضل ہے لیکن اگر وہ مسجد میں با جماعت نماز ادا کرنا چاہیں تو جائز ہے ، اس لیے انہیں روکنا نہیں چاہیے۔ (واللہ اعلم)


[1] البقرة:۴۳۔

[2] صحیح بخاری، الاذان باب نمبر ۲۹۔

[3] صحیح بخاری، الاذان،۶۴۴۔

[4] مسند امام احمد،ص۶۷،ج۲۔

[5] ابن ماجہ، المساجد:۷۹۳۔

[6] صحیح مسلم، المساجد:۶۵۴۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:85

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ