سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(53) فوت شدہ نمازیں

  • 20314
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-03
  • مشاہدات : 567

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر کوئی آدمی ہسپتال میں مسلسل دو دن بے ہوش رہا تو کیا ہوش آنے کے بعد اسے فوت شدہ نمازیں پڑھنا ہوں گی، قرآن و حدیث کے مطابق اس کی وضاحت کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شعور گم ہونے کی صورت میں انسان کے ذمے مالی حقوق ساقط نہیں ہو تے لیکن بد نی عبادات مثلاً نماز اور روزہ وغیرہ ساقط ہو جا تا ہے البتہ ہوش آنے کے بعد رمضان کے روزوں کی قضا واجب ہو گی لیکن نمازوں کی ادائیگی اس کے ذمے نہیں ہے کیونکہ یہ سوئے ہوئے شخص کی طرح نہیں ہے کہ وہ جب بیدار ہو تو فوت شدہ نمازوں کو ادا کرے۔ اس لیے کہ سوئے ہوئے شخص میں ادراک ہو تا ہے اگر اسے بیدار کیا جائے تو وہ بیدار ہو سکتا ہے لیکن بے ہوشی میں مبتلا انسان کو اگر بیدار کیا جائے تو وہ بیدار نہیں ہو سکتا ، بے ہو ش انسان کی فوت شدہ نمازوں کے متعلق اہل علم کے دو اقوال ہیں :

1             جمہور اہل علم کا موقف ہے کہ بے ہوشی کے دوران رہ جانے والی نمازوں کی قضا اس کے ذمے نہیں ہے ، چنانچہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ پر ایک رات بے ہوشی طاری رہی تو انھوں نے اس دوران فوت ہونے والی نمازوں کی قضا نہیں دی تھی۔[1]

2             کچھ اہل علم کا موقف ہے کہ بے ہوش آدمی اپنی فوت شدہ نمازیں ادا کر نے کا پابند ہے وہ اس سلسلہ میں حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کا عمل پیش کر تے ہیں کہ ان پر ایک دن اور ایک رات بے ہوشی طاری رہی تو انھوں نے ہوش میں آنے کے بعد فوت ہونے والی نمازوں کی قضا دی تھی۔[2] ہمارے رجحان کے مطابق جمہور اہلِ علم کا موقف صحیح ہے جس کی ہم نے پہلے ہی وضاحت کر دی ہے۔ (واللہ اعلم)


[1]  مصنف عبد الرزاق،ص۴۷۹،ج۲۔

[2]  مصنف عبد الرزاق:ص ۴۷۹،ج۲۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:84

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ