سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(51) صبح کی نماز کے بعد سونا

  • 20312
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-03
  • مشاہدات : 5255

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

صبح کی نماز پڑھ کر سونے کی شرعی حیثیت کیا ہے، مشہور ہے کہ صبح کی نماز کے بعد سونا رزق سے محرومی کا باعث ہے، اس سلسلہ میں کوئی حدیث مر وی ہے یا نہیں، قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 ایک انسان جب اللہ کی طرف سے عائد فریضہ نماز فجر کی ادائیگی کر لیتا ہے تو اس کے لیے نماز پڑھ کر سونا جائز ہے لیکن اسے عادت بنا لینا مستحسن عمل نہیں، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، آپ کے صحابہ کرام اور دیگر اسلاف نماز فجر کے بعد طلوع آفتاب تک تلاوت قرآن اور وظائف کا اہتمام کرتے تھے۔ اس سلسلہ میں ہمارا رجحان یہ ہے کہ نماز فجر کے بعد سونے کا جواز ہونے کے باوجود مسنون اذکار کا اہتمام کرنا افضل اور مستحب ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے، حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کر تے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز فجر ادا کر تے تو اپنی جائے نماز پر بیٹھے رہتے یہاں تک کہ سورج اچھی طرح طلوع ہو جاتا۔ [1]

اس حدیث کی تفصیل دوسری روایت میں بیان ہوئی ہے ، سماک بن حرب نے حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے عرض کیا، کیا آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھا کر تے تھے؟ انھوں نے جواب دیا: ہاں، ہم نے کئی ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں شرکت کی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ آپ اپنی اس جگہ سے جہاں نماز فجر ادا کر تے طلوع آفتاب سے پہلے نہ اٹھا کر تے تھے۔ جب سورج طلوع ہو جا تا تو وہاں سے اٹھ کھڑے ہوتے۔ صحابہ کرام وہاں گپ شپ لگاتے ، دور جاہلیت کے واقعات ایک دوسرے کو سناتے، خوب ہنستے انہیں دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مسکراتے۔[2] ان احادیث کے پیش نظر انسان کو چاہیے کہ نماز فجر پڑھ کر سونے کے بجائے ذکر و فکر اور تلاوت قرآن کو معمول بنائے۔ اس سہانے وقت کو نیند میں ضائع کرنے کی عادت سے گریز کرے۔ البتہ اس سلسلہ میں بیان کی جانے والی روایات انتہائی کمزور ہیں جن کے پیش نظر صبح کی نماز کے بعد سونا حرام قرار دیا جا تا ہے ، ہم صرف ایک روایت کا حوالہ دیتے ہیں اور اس کی حیثیت سے قارئین کرام کو آگاہ کر تے ہیں، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :’’میں صبح کے وقت سوئی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے اور آپ نے مجھے پاؤں سے ہلایا پھر فرمایا :بیٹی، اٹھو! اپنے رب کی طرف سے رزق کی تقسیم میں شامل ہو جاؤ اور غفلت شعار لو گوں کی عادت اختیار نہ کرو، اللہ تعالیٰ طلوع فجر سے طلوع آفتاب تک لو گوں کا رزق تقسیم کرتے ہیں۔ [3]

یہ روایت خود ساختہ اور موضوع ہے کیونکہ اس کی سند میں عبد الملک بن ہارون بن عنزہ راوی کذاب اور جھوٹی احادیث بیان کر نے والا ہے، امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے اسے ضعیف کہا ہے۔ امام یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ نے اسے کذاب کہا ہے ۔ امام ابو حاتم رحمۃ اللہ علیہ نے اسے متروک قرار دیا ہے ، امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ یہ شخص احادیث گھڑتا تھا۔[4] اس سلسلہ میں ایک دوسری حدیث حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’صبح کی نیند رزق سے رکاوٹ کا باعث ہے۔ ‘‘[5]

یہ روایت بھی انتہائی درجہ کی ضعیف ہے کیونکہ اس میں اسحاق بن ابی فر وہ نامی ایک راوی ہے جسے امام دار قطنی رحمۃ اللہ علیہ نے متروک قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لیے الآلی الموضوعہ ، ص ۱۵۷،ج۲ کا مطالعہ کریں۔ اگرچہ یہ روایات موضوع اور ضعیف ہیں تاہم صبح کی نماز کے بعد سونے کی عادت اچھی نہیں ہے ہاں اگر نیند کا غلبہ اور تھکاوٹ یا بیماری ہے تو یہ ایک معقول عذر ہے ، بلا عذر سونا اسلاف کی عادت نہیں ہے۔


[1] صحیح مسلم، المساجد:۱۵۲۶۔

[2] صحیح مسلم، المساجد:۱۵۳۵۔

[3] شعب الایمان، ص ۳۰، ج۹، حدیث نمبر ۴۴۰۵۔

[4] میزان الاعتدال، ص۶۶۶،ج۲۔

[5] شعب الایمان، ص۲۷،ج۹۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:83

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ