سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(50) جلسہ استراحت کی حیثیت

  • 20311
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1152

سوال

(50) جلسہ استراحت کی حیثیت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 جلسہ ٔ استراحت کیا ہو تا ہے اور اس کی شرعی حیثیت کیا ہے، کیا یہ سنت سے ثابت ہے ، بعض اہل علم اسے غیر مسنون عمل قرار دیتے ہیں، وضاحت فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

: جلسہ استراحت نماز میں پہلی رکعت کے بعد دوسری رکعت کے لیے اور تیسری رکعت کے بعد چوتھی رکعت کے لیے اٹھنے سے پہلے کچھ دیر اطمینان سے بیٹھنے کو کہتے ہیں یہ عمل سنت سے ثابت ہے ، چنانچہ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا، حضرت مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز کو طاق رکعت پڑھتے تو کچھ دیر بیٹھنے کے بعد کھڑے ہوتے۔ ‘‘[1]

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے:’’جو شخص دوران نماز طاق رکعت میں کچھ دیر اطمینان سے بیٹھ کر پھر کھڑا ہو۔‘‘[2] اس حدیث کے پیش نظر امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا موقف ہے کہ دورانِ نماز جلسہ استراحت مشروع اور مسنون ہے جبکہ دیگر ائمہ کا موقف ہے کہ یہ عمل مسنون نہیں ہے ، ان کی دلیل درج ذیل حدیث ہے:

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں اپنے دونوں قدموں کے پنجوں پر کھڑے ہوتے تھے۔ [3]

لیکن اس روایت کے متعلق خود امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں ایک راوی خالد بن ایاس ہے جسے محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے ، امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے متروک کیا ہے۔[4] بہر حال یہ روایت ضعیف ہے۔ صاحب ہدایہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جلسہ استراحت کو بڑھاپے پر محمول کیا ہے جسے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے مسترد کر دیا ہے اور آپ فرماتے ہیں کہ یہ تاویل کسی دلیل کی محتاج ہے۔[5] خود راوی حدیث حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نے اسے بڑھاپے پر محمول نہیں کیا ہے تو کسی دوسرے کا ایسا کہنا کیسے معتبر ہو سکتا ہے۔ بہرحال جلسہ استراحت سنت سے ثابت ہے اور اسے دوران نماز عمل میں لانا چاہیے، اس کے خلاف جو دلائل پیش کیے جاتے ہیں وہ صحیح نہیں ہیں۔ (واللہ اعلم)


[1] صحیح بخاری، الاذان: ۸۲۳۔

[2] بخاری، الاذان، باب نمبر ۱۴۱۔

[3] ترمذی، الصلوة:۲۸۸۔

[4] میزان الاعتدال:ص۴۰۷،ج۲۔

[5] الدرایہ،ص۱۴۷،ج۱۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:82

محدث فتویٰ

تبصرے