السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک آدمی نے کسی عورت سے نکاح کیا لیکن رخصتی سے پہلے وہ فوت ہو گیا، اب کیا اس کا بیٹا اس عورت سے نکاح کر سکتا ہے یا نہیں؟ کتاب و سنت کی روشنی میں فتویٰ دیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صورت مسؤلہ مذکورہ عورت نکاح کے بعد اس آدمی کی بیوی بن چکی ہے، اب اس پر بیوی کے احکام لاگو ہوں گے، وہ حق مہر کی بھی حق دار ہے، اسے ترکہ سے حصہ بھی ملے گا اور اس نے عدتِ وفات چار ماہ دس دن بھی گزارنے ہیں جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اس قسم کی عورت کے متعلق سوال ہوا تھا تو انہوں نے جواب دیا پھر اس کی تصدیق قبیلہ اشجع کے چند آدمیوں نے بھی کی تھی کہ یہی فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بروع بنت واشق رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمایا جب کہ اس کا خاوند حضرت ہلال بن مرہ اشجعی رضی اللہ عنہ فوت ہو چکے تھے۔ [1]
جب مذکورہ عورت باپ کی منکوحہ ہے تو اس سے نکاح نہیں ہو سکتا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَ لَا تَنْكِحُوْا مَا نَكَحَ اٰبَآؤُكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ١﴾ [2]
’’اور جن عورتوں کو تمہارے باپ نکاح میں لا چکے ہیں، تم ان سے نکاح نہ کرو مگر پہلے جو ہو چکا سو ہو چکا۔‘‘
اس آیت کریمہ کا واضح مطلب کہ سوتیلی ماں بھی حقیقی ماں کے مقام پر ہے، اس سے نکاح کرنا انتہائی شرمناک اور قابل مذمت ہے، البتہ جو نکاح اس حکم کے آنے سے پہلے ہو چکے تھے وہ کالعدم نہیں ہوں گے او رنہ ہی ان کی پیدا شدہ اولاد حرامی ہو گی، وراثت کے احکام بھی ان پر لاگو ہوں گے لیکن اس حکم کے بعد سوتیلی ماں سے نکاح کرنا حرام ہے، البتہ اگر کوئی شخص رخصتی سے قبل منکوحہ کو طلاق دے دی تو ایسی عورت پر عدت طلاق نہیں ہو گی جیسا کہ قرآن کریم میں اس کی صراحت ہے، البتہ خاوند کے فوت ہونے کی صورت میں وہ اس کے بیٹے کے نکاح میں نہیں آسکے گی، اس بنا پر صورت مسؤلہ میں مذکورہ عورت، خاوند کے بیٹے کی سوتیلی ماں ہے اور اس سے نکاح کرنا حرام ہے جیسا کہ قرآن کریم نے وضاحت فرمائی ہے۔ (واللہ اعلم)
[1] ابواود، النکاح: ۲۱۱۴۔
[2] ۴/النساء: ۲۲۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب