السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک جوڑے کا نکاح عدالتی ہوا، ان کے ہاں تین چار بچے بھی ہیں، اب اس عورت کو طلاق مل گئی ہے، کیا وہ دونوں دوبارہ باہمی نکاح کر سکتے ہیں، یہ بھی واضح کریں کہ اس جوڑے کا جو عدالتی نکاح تھا اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نکاح کے جائز ہونے کے لیے بنیادی شرط ولی یعنی سر پرست کی اجازت ہے، عدالتی نکاح میں چونکہ ولی کی اجازت نہیں ہوتی بلکہ اس کی رضا مندی سے بالا بالا نکاح کیا جاتا ہے لہٰذا ایسا نکاح جائز نہیں ہے، حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ولی کی اجازت کے بغیر نکاح درست نہیں۔‘‘ [1]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کے نکاح کو باطل قرار دیا ہے، چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس عورت نے اپنے سر پرست کی اجازت کے بغیر نکاح کیا، اس کا نکاح باطل ہے، آپ نے آخری فقرہ تین مرتبہ دہرایا۔‘‘[2]
ایک روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ولی کی اجازت کے بغیر خود بخود نکاح کرنے والی عورت کو بدکار کہا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کوئی عورت کسی کا (ولی بن کر) نکاح نہ کرے اور نہ ہی وہ خود اپنا نکاح کرنے کی مجاز ہے، بلاشبہ وہ عورت زانیہ ہے جس نے اپنا نکاح خود کر لیا۔‘‘[3]
ان احادیث سے معلوم ہو اکہ عورت کے نکاح کے لیے سر پرست کی اجازت شرط ہے اور اس کے بغیر اس کا نکاح نہیں ہوتا، اس بنا پر ہم کہتے ہیں کہ صورت مسؤلہ کا نکاح صحیح نہیں ہے، اب ضروری ہے کہ اس جوڑے کے درمیان فوراً تفریق کرا دی جائے، چونکہ یہ تفریق بذریعہ ’’طلاق‘‘ عمل میں آچکی ہے، اگرچہ اس کی ضرورت نہ تھی کیونکہ جیسے نکاح ہی نہیں تو طلاق دینا چہ معنی دارد؟ تاہم قانونی اعتبار سے طلاق کا ہونا مستقبل میں تحفظات کا باعث ہو گا، اب دوبارہ باضابطہ طور پر ان کا باہمی نکاح ہو سکتا ہے، اس باضابطہ نکاح کی چار شرائط حسب ذیل ہیں: 1 عورت کی رضا مندی ہو،2 ولی کی اجازت ہو، 3 حق مہر از سر نو مقرر کیا جائے۔ 4کم از کم دو گواہ موجود ہوں۔
بہرحال ہمارے رجحان کے مطابق عدالتی نکاح درست نہیں کیونکہ اس میںولی کی اجازت نہیں پائی گئی، تفریق کے بعد دوبارہ باضابطہ طور پر نکاح کیا جا سکتا ہے۔ (واللہ اعلم)
[1] ابوداود، النکاح ۲۰۸۵۔
[2] جامع ترمذی، النکاح: ۱۱۰۲۔
[3] ابن ماجہ، النکاح: ۱۸۸۲۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب