السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میرا جب نکاح ہوا تو میری ہونے والی بیوی حالت حیض میں تھی، مجھے کسی نے کہا ہے کہ اس حالت میں نکاح نہیں ہوتا۔ کیا اب مجھے تجدید نکاح کرنا چاہیے؟ اس کے متعلق میری پریشانی دور کریں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عقود و معاملات میں اصل جواز وحلت ہے الا یہ کہ حرمت پر کوئی دلیل قائم ہو، حالت حیض میں نکاح کی حرمت پر کوئی دلیل نہیں ہے، کتاب و سنت، اقوال صحابہ اور اجماعِ امت میں کوئی ایسی دلیل ہمیں دستیاب نہیں ہو سکی۔ قیاس صحیح سے بھی اسے حرام قرار نہیں دیا جا سکتا، کسی بھی اہل علم نے اسے حرام قرار دیا یا ناپسند کیا ہو، ایساکہیں بھی منقول نہیں ہے، البتہ بعض فقہا نے حالت حیض میں لڑکی کی رخصتی کو مکروہ ضرور کہا ہے، مبادا خاوند اس سے ہم بستری کر کے گنہگار ہو۔ دراصل بعض لوگ حالت حیض میں نکاح کے حکم کو حالت حیض میں طلاق کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں۔ حالانکہ ان دونوں کے درمیان کوئی قدر مشترک نہیں، جس کی بنا پر ایک کو دوسرے پر قیاس کیا جا سکے۔ ہمارے رجحان کی بنا پر حالت حیض میں نکاح بالاتفاق صحیح ہے البتہ خاوند کو اس حالت میں اس کے پاس جانے سے اجتناب کرنا ہو گا، ہاں اس حالت میں طلاق دینا بالاتفاق حرام ہے، اگرچہ اس حالت میں طلاق دینے سے شریعت کی خلاف ورزی کے باوجود طلاق ہو جائے گی جیسا کہ ہم کسی سابقہ فتویٰ میں اس موضوع پر تفصیل سے لکھ چکے ہیں۔ بہرحال ایسی حالت کا عقد نکاح جو حالت حیض میں ہو صحیح اور جائز ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ اس کی حرمت پر کتاب و سنت، اقوال صحابہ، قیاس صحیح اور اجماع میں کوئی دلیل نہیں ہے، معاملات میں اصل حلت و جواز ہونے کی بنا پر ایسا نکاح صحیح اور جائز ہے۔ (واللہ اعلم)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب