سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(373) گم شدہ خاوند کی بیوی دوسرے نکاح کے لیے کتنا عرصہ انتظار کرے؟

  • 20022
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-04
  • مشاہدات : 4237

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک عورت جس کی شادی آج سے اٹھارہ سال قبل ہوئی، اس کے ہاں تین بچے بھی پیدا ہوئے، تقریباً پانچ ماہ قبل اس عورت کا خاوند، بیوی بچوں کو چھوڑ کر کہیں روپوش ہو گیا، اس کے اہل خانہ کو اس کے متعلق کوئی سراغ نہیں ملا اور نہ ہی اس نے کوئی اطلاع دی ہے، بچوں کو خرچہ بھی نہیں بھیجا، ایسے حالات میں عورت، کتنی مدت تک کے لیے اپنے خاوند کا انتظار کرے، کتنی مدت کے بعد وہ دوسرا نکاح کرنے کی مجاز ہے؟ قرآن و حدیث کے مطابق سوال کا جواب دیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

فقہی اصطلاح میں لا پتہ شخص کو مفقود الخبر کہتے ہیں یعنی ایسا شخص جس کی زندگی یا موت کے متعلق تلاش کے باوجود کوئی سراغ نہ مل سکے آیا وہ زندہ موجود ہے یا دنیا سے چل بسا ہے۔ دورِ حاضر میں اکثر و بیشتر ایسا ہوتا ہے کہ ملکی یا غیر ملکی ایجنسیاں کسی آدمی کو چپکے سے اٹھا لیتی ہیں۔ پھر سالہا سال تک اس کا کوئی پتہ نہیں چلتا۔ اخبارات میں بکثرت اس طرح کی خبریں ہم روزانہ پڑھتے ہیں، چونکہ اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی صحیح حدیث مروی نہیں ہے تاکہ اس کی روشنی میں اس کے متعلق کوئی دو ٹوک فیصلہ کیا جا سکے، اس بنا پر متقدمین میں خاصا اختلاف پایا جاتا ہے البتہ ایک من گھڑت اور خود ساختہ حدیث مروی ہے، حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لا پتہ شوہر کی بیوی اس وقت تک اس کی بیوی ہی رہے گی جب تک کہ گمشدہ آدمی کے متعلق کوئی واضح اطلاع نہ موصول ہو جائے۔‘‘ [1]

 اس حدیث کی سند میں محمد بن شرحبیل صمدانی ایک راوی ہے جسے محدثین نے متروک قرار دیا ہے اور وہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے منکر اور باطل روایات بیان کرنے میں مشہور ہے، پھر اس سے بیان کرنے والا سوار بن مصعب بھی اسی قسم کا ہے بہرحال یہ روایت ناقابل حجت اور نکارہ ہے۔ [2]

 اس مسئلہ کے متعلق کچھ حضرات نے یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ ایسے شخص کی بیوی طویل عرصہ تک انتظار کرے تاوقتیکہ لا پتہ شوہر کی عمر ایک سو بیس سال کی ہو جائے مثلاً ایک اٹھارہ سال کی لڑکی کا نکاح بیس سالہ لڑکے سے ہوا، وہ لڑکا چند روز بعد لا پتہ ہو گیا اور اس کا کوئی سراغ نہیں مل سکا تو ان حضرات کے نزدیک وہ لڑکی سو سال تک اپنے لا پتہ خاوند کا انتظار کرے تاآنکہ اس کی عمر ایک سو بیس برس ہو جائے، اس کے بعد فیصلہ کیا جائے گا وہ فوت ہو چکا ہے پھر وہ عدتِ وفات چار ماہ دس دن انتظار کر کے کسی دوسرے سے نکاح کرنے کی مجاز ہو گی۔ [3]

 لیکن مذکورہ مؤقف اختیار کرنے میں جو مفاسد پوشیدہ ہیں وہ کسی صاحب عقل سے مخفی نہیں ہیں کہ ایک لڑکی کا جب خاوند لا پتہ ہو اتو لڑکی کی عمر اٹھارہ سال تھی پھر اسے اٹھانوے سال اپنے لا پتہ شوہر کے انتظار میں گزارنے ہوں گے تاآنکہ اس کی موت یقینی ہو جائے، اس عمر میں وہ خاک شادی کرے گی، اس مؤقف کی سنگینی کو خود اختیار کرنے والوں نے محسوس کیا اور اس کے غیر معقول ہونے کا فیصلہ دیا، چنانچہ مولانا اشرف علی تھانوی نے ایسی مظلومہ کے لیے ایک کتاب ’’الحیلۃ الناجزۃ‘‘ لکھی وہ اس میں فرماتے ہیں: ’’فقہاء حنفیہ میں سے بعض متاخرین نے وقت کی نزاکت اورفتنوں پر نظر رکھتے ہوئے اس مسئلہ میں حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے مذہب پر فتویٰ دیا ہے، ایک عرصہ سے ارباب فتویٰ اہل ہندو بیرون ہند تقریباً سب نے اس قول پر فتویٰ دینا اختیار کر لیا ہے او ریہ مسئلہ اس وقت ایک حیثیت سے فقہ حنفی ہی میں داخل ہو گیا۔ [4]

 امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے لا پتہ شوہر کی بیوی کے متعلق یہ فیصلہ دیا ہے کہ وہ خاوند کے لاپتہ ہونے کے وقت سے چار سال گزر جانے تک انتظار کرے پھر اس خاوند پر فوت ہونے کا حکم لگایا جائے گا، اس کے بعد عدت وفات چار ماہ دس دن گزارے گی، پھر اسے دوسرا نکاح کرنے کی اجازت ہو گی۔[5] امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے مزید لکھا ہے کہ اگر نکاح ثانی سے پہلے پہلے لا پتہ خاوند گھر آجائے تو وہ بیوی اسی کی ہو گی اور اگر وہ نکاح ثانی کر لینے کے بعد بازیاب ہو تو اسے بیوی سے محروم ہونا پڑے گا، اگرچہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ان حالات میں اسے حق مہر اور بیوی میں سے ایک کا اختیار دیا جائے گا لیکن پہلا مؤقف ہی زیادہ قرین قیاس ہے۔ یعنی اگر اس کی بیوی نکاح ثانی کر لیتی ہے تو اسے اپنی بیوی سے محروم ہونا پڑے گا۔ دراصل امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے لا پتہ شوہر کے متعلق جو مؤقف اختیار کیا ہے انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ایک فیصلے کو بنیاد بنایا ہے۔ ان کے ہاں اس طرح کا ایک معاملہ آیا تو انہوں نے فرمایا: ’’لا پتہ آدمی کی بیوی چار سال انتظار کرے، پھر شوہر کے فوت ہونے کی عدت گزارے یعنی چار ماہ دس دن، اس کے بعد اگر چاہے تو شادی کرے۔‘‘ [6]

 بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی اسی مؤقف کو اختیار کیا تھا اور اس کے مطابق فیصلہ دیا تھا۔[7]

 حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اسی مؤقف کو اپنایا ہے۔ [8]

 حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر شوہر دوران جنگ لا پتہ ہو جائے تو اس کی بیوی ایک سال انتظار کرے اور اگر جنگ کے علاوہ کسی دوسری جگہ لا پتہ ہو جائے تو چار سال انتظار کرے۔ [9]

 بہرحال قرآن کریم نے عورتوں کے متعلق فرمایا ہے کہ تم ان کے ساتھ اچھے انداز سے زندگی گزارو۔[10]

 نیز فرمایا کہ انہیں محض تکلیف دینے کے لیے اپنے گھروں میں مت بند کرو۔‘‘ [11]

 ان دو آیات میں عورتوں کے حقوق کو بڑے عمدہ اور جامع انداز میں بیان کیا گیا ہے، ممکن ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلے کی بنیاد یہی دو آیات ہوں، کیونکہ لا پتہ شوہر کی بیوی کو بلاوجہ طویل مدت تک انتظار کرنے کا پابند کرنا حسن معاشرت کے منافی اور اسے تکلیف دینے کے مترادف ہے، ہمارے رجحان کے مطابق امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا مؤقف صحیح ہے کیونکہ اسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ایک فیصلے کی تائید حاصل ہے، معاشرتی حالات بھی اس کا تقاضا کرتے ہیں لیکن مدت انتظار کا تعین حالات و ظروف کے تحت کیا جا سکتا ہے۔ موجودہ دور میں ذرائع مواصلات اس قدر وسیع اور سریع ہیں جن کا تصور زمانہ قدیم میں محال تھا۔ آج ہم کسی شخص کے گم ہونے کی اطلاع ریڈیو اور اخبارات کے ذریعے ایک دن میں ملک کے کونے کونے تک پہنچا سکتے ہیں بلکہ انٹرنیٹ کے ذریعے چند منٹوں میں گم شدہ شخص کی تصویر بھی دنیا کے چپہ چپہ تک پہنچائی جا سکتی ہے، اس بنا پر چار سال کی مدت انتظار کو مزید کم کیا جا سکتا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا رجحان ایک سال مدت انتظار کی طرف سے معلوم ہوتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے اپنی صحیح میں ایسے شخص کے متعلق ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے۔

 ’’مفقود الخبر کی بیوی اس کے مال و متاع کا حکم‘‘ [12]

 لیکن آپ نے واضح طور پر دو ٹوک الفاظ میں اس کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا، البتہ پیش کردہ احادیث و آثار سے آپ کا رجحان معلوم کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت سعید بن مسیب کا فتویٰ نقل کیا ہے کہ جب کوئی سپاہی میدان جنگ میں گم ہو جائے تو اس کی بیوی ایک سال تک انتظار کرے، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے متعلق بیان کیا ہے کہ انہوں نے کسی سے ادھار لونڈی خریدی پھر لونڈی کا مالک گم ہو گیا تو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک سال تک اس کا انتظار کیا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنا رجحان بیان کرنے کے لیے حدیث لقطہ کو ذکر کیا ہے کہ اگر کسی کو گرا پڑا سامان ملے تو وہ اس کا سال بھر اعلان کرے۔[13]

 ان آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک زوجہ مفقود کے لیے انتظار کا وقت ایک سال مقرر کیا جا سکتا ہے، موجودہ احوالِ و ظروف کے مطابق یہ مؤقف قرین قیاس بھی ہے لہٰذا ذرائع مواصلات اور میڈیا کے پیش نظر دورِ حاضر میں ایک سال کا انتظار کافی معلوم ہوتا ہے، بصورت دیگر قدیم فتویٰ تو اپنی جگہ جمہور علما اسلام اور مفتیانِ کرام کے ہاں رائج چلا آ رہا ہے لیکن عقد نکاح کوئی کچا دھاگہ نہیں ہے جسے آسانی سے توڑ دیا جائے او ریہ ایک ایسا حق ہے جو خاوند کے لیے لازم ہو چکا ہے۔ اس بنا پر اس عقد نکاح کو کھولنے کا مجاز عورت کا شوہر ہے لیکن دفع مضرت کے پیش نظر عدالت، خاوند کے قائم مقام ہو کر فسخ کرنے کی مجاز ہے جیسا کہ خلع وغیرہ میں ہوتا ہے۔ اس لیے گم شدہ خاوند سے خلاصی کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا جائے کہ عورت عدالت کی طرف رجوع کرے، رجوع سے قبل جتنی مدت گزر چکی ہو گی اس کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا، ہمارے ہاں بعض عورتیں مدت دراز انتظار کرنے کے بعد عدالت کے نوٹس میں لائے بغیر یا اس کا فیصلہ حاصل کرنے سے قبل محض فتویٰ لے کر نکاح کر لیتی ہیں، ان کا یہ اقدام صحیح نہیں ہے، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ اگر کوئی عورت عدالت کے نوٹس میں لائے بغیر اپنے مفقود شوہر کا انتظار چار سال تک کرے تو اس مدت کا اعتبار کیا جائے گا؟ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا اگروہ اس طرح بیس سال بھی گزار دے تو بھی اس کا کوئی اعتبار نہیں ہو گا۔ [14]

 اس بنا پر ضروری ہے کہ جس کا خاوند لاپتہ ہو جائے وہ فوری طور پر عدالت کی طرف رجوع کرے پھر اگر عدالت اس نتیجہ پر پہنچے کہ واقعی مفقود الخبر ہے تو وہ عورت کو ایک سال انتظار کرنے کا حکم دے گی، اگر اس مدت تک شوہر نہ آئے تو ایک سال کے اختتام پر عدالت نکاح فسخ کر دے گی، پھر عورت اپنے شوہر کو مردہ تصور کر کے عدتِ وفات یعنی چارہ ماہ دس دن گزارنے کے بعد نکاح ثانی کرنے کی مجاز ہو گی، اگر عدالت بلاوجہ معاملہ کو طول دے اور عورت مجبور ہو اور وہ صبر نہ کر سکے تو مسلمانوں کی ایک جماعت تحقیق کر کے فیصلہ کرے، ایسے حالات میں پنچائتی فیصلہ بھی عدالت کا فیصلہ ہی تصور ہو گا۔


[1]  دارقطنی، ص: ۳۱۲،ج۳۔ 

[2]  التعلیق المغنی،ص: ۳۱۲،ج۳۔ 

[3] ہدایہ کتاب المفقود۔ 

[4] الحیلة الناجزہ،ص: ۵۰۔ 

[5] مؤطا امام مالک، کتاب الطلاق۔  

[6] بیہقی،ص: ۴۴۵،ج۷۔

[7] مصنف عبدالرزاق، ص: ۸۵،ج۷۔

[8] بیہقی،ص: ۴۴۵،ج۷۔

[9] مصنف عبدالرزاق،ص: ۸۹،ج۷۔

 [10] ۴/النساء:۱۹۔    

[11] ۲/البقرة: ۲۳۱۔

[12] صحیح بخاری، الطلاق، باب نمبر۲۲۔ 

[13] صحیح بخاری، الطلاق، حدیث نمبر: ۵۲۹۲۔

[14]  المدونة الکبریٰ،ص: ۹۳،ج۲۔  

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:322

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ