سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(367) فوت شدہ بیٹے کا حصہ نکالنا

  • 20016
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 786

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

فوت شدہ بیٹا اپنے والد کی جائیداد کا شرعی وارث ہو سکتا ہے یا نہیں؟ اگر قانونی لحاظ سے کوئی جائیداد فوت شدہ بیٹے کے نام منتقل ہو چکی ہے تو کیا شرعاً اس کی اصلاح ہو سکتی ہے اور اسے واپس لیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ قرآن و حدیث کے مطابق فتویٰ دیا جائے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرط صحت سوال فوت شدہ بیٹا اپنے باپ کی جائیداد کا شرعی وارث نہیں ہو سکتا کیونکہ کسی کی جائیداد سے بطور وارث حصہ لینے کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ حصہ لینے والا میت کی موت کے وقت زندہ ہو جس طرح وراثت جاری ہونے کے لیے یہ بھی شرط ہے کہ میت کی موت واقع ہو چکی ہو، اس کا مطلب یہ ہے کہ فوت شدہ آدمی سے بھی جائیداد سے بطور وراثت حصہ نہیں پا سکتا اور نہ ہی زندہ آدمی اپنی جائیداد سے بطور وراثت کوئی حصہ دے سکتا ہے، اس پر تمام علماء امت کا اتفاق ہے، اگر قانونی طور پر کوئی جائیداد کسی فوت شدہ کے نام منتقل ہو چکی ہو تو شرعی طور پر اسے واپس لیا جا سکتاہے بلکہ اس کی اصلاح کرنا بہت ضروری ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿فَمَنْ خَافَ مِنْ مُّوْصٍ جَنَفًا اَوْ اِثْمًا فَاَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَاۤ اِثْمَ عَلَيْهِ١ ﴾[1]

’’اگر وصیت کرنے والے کی طرف سے کسی کی طرفداری یا حق تلفی کا اندیشہ ہو تو ورثاء کے درمیان صلح کرا دی جائے تو اس میں کوئی گناہ نہیں۔‘‘

 اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ غلط وصیت پتھر پر لکیر نہیں جو انمٹ ہو بلکہ اس کی اصلاح ضروری ہے تاکہ قیامت کے دن اسے مواخذہ سے بچایا جا سکے، شریعت کسی بھی غلط اقدام کو تسلیم نہیں کرتی اور نہ ہی اسے برقرار رکھتی ہے بلکہ اس کی اصلاح کا مطالبہ کرتی ہے احادیث میں ایسے متعدد واقعات ہیں، جن میں غلط وصیت کی اصلاح کا ذکر ہے۔ اس بنا پر اگر کوئی جائیداد کسی فوت شدہ بیٹے کے نام منتقل ہو چکی ہو تو شرعاً اسے واپس لیا جا سکتا ہے بلکہ ایسا کرنا ضروری ہے تاکہ کسی دوسرے وارث کی حق تلفی نہ ہو۔ بہرحال نہ تو فوت شدہ بیٹا جائیداد سے بطور وراثت حصہ لے سکتا ہے اور نہ ہی اس کے نام منتقل شدہ باپ کی جائیداد کو برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ (واللہ اعلم)


[1]   2البقرة:182

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:317

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ