سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(345) وصیت کی موجودگی میں ترکہ کی تقسیم

  • 19994
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-15
  • مشاہدات : 539

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے ہاں ایک لڑکی فوت ہوئی ہے، اس کی تین بہنیں اور دو بھائی ہیں، اس نے کچھ رقم اور زیورات ترکہ چھوڑا ہے اس نے وصیت کی تھی کہ رقم مسجد کو دے دیں اور زیورات میری بہنوں کو دے دیں، بھائیوں کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ اس کی رقم جو سات لاکھ اور زیورات چودہ لاکھ روپیہ مالیت کے ہیں، اس کے متعلق شرعی کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شرعی طور پر وصیت کے کچھ اصول و ضوابط ہیں، پہلا اصول یہ ہے کہ کسی وارث کو نقصان پہنچانے کے لیے وصیت جائز نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’آدمی یا عورت ساٹھ سال تک اللہ کی عبادت کرتے رہتے ہیں لیکن جب موت آتی ہے تو وصیت کر کے اپنے ورثاء کو نقصان پہنچا جاتے ہیں، اس وجہ سے ان پر جہنم کی آگ واجب ہو جاتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جو راویٔ حدیث ہیں، نے اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد یہ آیت تلاوت فرمائی:

﴿ مِنْۢ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُّوْصٰى بِهَاۤ اَوْ دَيْنٍ١ۙ غَيْرَ مُضَآرٍّ١ۚ… ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ ﴾ [1]

’’اس وصیت کے بعد جو کی جائے اور قرض کے بعد جب کہ دوسرے کو نقصان نہ کیا گیا ہو یہ اللہ کی طرف سے ایک تاکیدی حکم ہے اور اللہ دانا و بینا اور نرم خو ہے، یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں۔جو اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرے گا اُسے اللہ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور ان باغوں میں وہ ہمیشہ رہے گا اور یہی بڑی کامیابی ہے۔‘‘ [2]

 یہ روایت شہر بن حوشب کی وجہ سے اگرچہ ضعیف ہے تاہم مسئلہ کے ثبوت کے لیے مذکورہ آیت ہی کافی ہے۔ دوسرا اصول یہ ہے کہ وصیت ایسے وارث کے لیے نہ ہو جسے اس کی جائیداد سے حصہ ملنا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کو اس کا حق دے دیا ہے لہٰذا اب ہر کسی وارث کے لیے وصیت جائز نہیں ہے۔‘‘ [3]

 اگر دوسرے ورثاء اس قسم کی وصیت کو برداشت کر لیں تو وارث کو وصیت کی جا سکتی ہے جیسا کہ ایک روایت میں اس کی صراحت ہے۔ [4] تیسرا اصول یہ ہے کہ وصیت تہائی مال سے زائد نہ ہو، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو اپنے ترکہ سے ایک تہائی وصیت کرنے کی اجازت دی تھی۔ [5]

 حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر لوگ وصیت کو ایک تہائی سے کم کر کے ایک چوتھائی تک کر لیں تو مجھے زیادہ پسند ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ’’ایک ثلث کی وصیت کر دو لیکن تہائی بھی بہت زیادہ ہے۔‘‘ [6]

 صورت مسؤلہ میں اگر فوت ہونے والی لڑکی کی وصیت ایک تہائی مال سے ہے تو اس پر عمل کیا جائے بصورت دیگر اسے کم کر کے ایک تہائی کر دیا جائے چونکہ کل ترکہ اکیس لاکھ ہے جس کی ایک تہائی سات لاکھ بنتی ہے اس لیے سات لاکھ روپیہ وصیت کے مطابق مسجد کو دے دیا جائے۔ اس کا وصیت کے ذریعہ ترکہ میں بھائیوں کو شریک نہ کرنا شرعاً جائز نہیں بلکہ وصیت سے باقی ترکہ دو بھائیوں اور تین بہنوں میں تقسیم ہو گا، چونکہ بھائی کو ایک بہن سے دوگنا حصہ ملتا ہے اس لیے باقی جائیداد کے سات حصے کر لیے جائیں پھر ہر بھائی کو دو حصے اور ہر بہن کو ایک ایک حصہ دیا جائے، وصیت نکال کر باقی جائیداد چودہ لاکھ ہے اس لیے چار، چار لاکھ ہر بھائی کو اور دو، دو لاکھ ہر بہن کو دیا جائے، تمام زیورات بہنوں کو دینا اور بھائیوں کو محروم کرنا شرعاً جائز نہیں۔ (واللہ اعلم)


[1] ۴/النساء:۱۲۔

[2]   ابوداود، الوصایا: ۲۸۶۷۔

[3]    ابن ماجہ، الوصایا: ۲۷۱۲۔  

[4]  بیہقی، ص: ۲۶۳،ج۶۔   

[5] صحیح بخاری، الجنائز: ۲۱۱۶۔

[6] صحیح بخاری الوصایا:۲۷۴۳۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:300

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ