السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک شخص بیمار تھا اور وہ رمضان میں روزے نہیں رکھ سکا، اللہ تعالیٰ نے اسے صحت عطا فرمائی لیکن وہ روزے نہیں رکھ سکا، حتیٰ کہ دوسرا رمضان شروع ہو گیا، اب اس کے لیے کیا حکم ہے؟ وضاحت فرمائیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
رمضان کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ١ وَ مَنْ كَانَ مَرِيْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ﴾[1]
’’تم میں سے جو کوئی اس مہینہ میں موجود ہو، اسے چاہیے کہ وہ پورے مہینے کے روزے رکھے اور جو بیمار یا مسافر ہو تو دوسرے دنوں میں ان کا شمار کرے۔‘‘
وہ شخص جس نے کسی شرعی عذر کی وجہ سے روزے ترک کیے تھے، اس کے لیے ضروری تھا کہ اللہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے دوسرے رمضان سے پہلے پہلے قضاء شدہ روزوں کو رکھ لیتا جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا فرمان ہے: رمضان کے روزے میرے ذمے ہوتے تھے تو میں ان کی قضاء کرنے کی شعبان کے علاوہ کسی دوسرے مہینے میں اس کی استطاعت نہ رکھتی تھی۔[2]
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس فرمان اور عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ دوسرا رمضان شروع ہونے سے پہلے پہلے قضاء کے روزے رکھ لینا ضروری ہیں، اگر کوئی انہیں دوسرے رمضان تک مؤخر کر دے تو اس سے قضاء شدہ روزے ساقط نہیں ہوں گے۔ اسے چاہیے کہ وہ اللہ کے حضور توبہ استغفار کرے اور اپنے اس فعل پر شرمسار ہو اور رمضان کے بعد اپنے چھوڑے ہوئے روزوں کو ضرور رکھے، چھوڑے ہوئے روزوں کا رکھناضروری ہے خواہ وہ دوسرے رمضان کے بعد ہی رکھے۔ (واللہ اعلم)
[1] ۲/البقرة:۱۸۵۔
[2]صحیح بخاری، الصوم: ۱۹۵۱۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب