السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میری بیوی طبعی طور پر بہت کمزور ہے، وہ روزہ نہیں رکھ سکتی جبکہ میری مالی حالت اس قدر کمزور ہے کہ میں اس کی طرف سے کسی کو روزے بھی نہیں رکھوا سکتا، ایسے حالات میں میری بیوی کے متعلق کیا شرعی حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
روزوں کے متعلق حکم الٰہی یہ ہے کہ انہیں بروقت رکھا جائے، اگر کوئی عذر ہے تو انہیں بعد میں رکھ لیا جائے اگر بروقت یا بعد میں رکھنے کی ہمت نہیں ہے تو کسی مسکین کو روزے رکھوا دئیے جائیں، لیکن اگر روزے رکھوانے کی ہمت نہیں ہے۔ مالی حالت واقعی کمزور ہے تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے انسان سے باز برس نہیں کریں گے کیونکہ اس نے خود فرمایا ہے:
﴿لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفسًا إِلّا وُسعَها...﴿٢٨٦﴾... سورة البقرة
’’اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔‘‘
چونکہ مفلوک الحال انسان اپنی بیوی کی طرف سے فدیہ دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور وہ عورت خود روزہ رکھنے کی ہمت نہیں رکھتی، ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ ان سے معافی کا معاملہ فرمائے گا۔ (ان شاء اللہ)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب