سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(189) تدفین کے بعد قبر پر اجتماعی دعا کرنا

  • 19838
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-17
  • مشاہدات : 3470

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

تدفین سے فراغت کے بعد قبر پر کھڑے ہو کر میت کے لیے اجتماعی دعا کرنا، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

میت کو قبر میں دفن کرنے کے بعد قبر پر کھڑے ہو کر دعا کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قولاً و عملاً دونوں طرح سے ثابت ہے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب میت کو دفن کر کے فارغ ہوتے تو کھڑے ہوتے اور فرماتے: ’’اپنے بھائی کے لیے استغفار کرو پھر اس کے لیے ثابت قدمی کی دعا کرو کیونکہ اس سے اب باز پرس ہو رہی ہے۔‘‘[1]

 اس حدیث سے ثابت ہو اکہ میت کو جب قبر میں دفن کر دیا جاتا ہے تو  و جواب کرنے کے لیے فرشتے وہاں آجاتے ہیں اور میت سے سوال و جواب کرتے ہیں، اس بناء پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلقین کی ہے کہ اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے بخشش کی دعا کی جائے اور اللہ سے ثابت قدم رہنے کی بھی التجاء کی جائے، اس کے علاوہ فتح الباری میں صحیح ابو عوانہ کے حوالہ سے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث بیان کی گئی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عبداللہ بن ذی الجنادین رضی اللہ عنہ کی قبر پر دیکھا، جب آپ اسے دفن کرنے سے فارغ ہوئے تو قبلہ کی طرف منہ کیا، دونوں ہاتھ اٹھائے (اور دعا کی)۔ [2]اس حدیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب حضرت عبداللہ بن ذی الجنادین رضی اللہ عنہ کی تدفین سے فارغ ہوئے تو ان کے لیے قبلہ رو ہو کر دعا کی اور اپنے ہاتھ بھی اٹھائے، قبلہ رو کھڑے ہو کر دعا کرنا بہتر ہے۔ لیکن یہ دعا کے لیے شرط نہیں ہے، ویسے جس طرف بھی منہ کر کے دعا کر لی جائے جائز ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿فَاَيْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ١ ﴾ [3]

’’تم جدھر بھی منہ کرو ادھر ہی اللہ کا چہرہ ہے۔‘‘

 بہرحال دفن کے بعد میت کے لیے قبر پر کھڑے ہو کر دعا کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قولاً و عملاً دونوں طرح ثابت ہے، اس کا اہتمام کرنا چاہیے۔ (واللہ اعلم)


[1] ابوداود، الجنائز: ۳۲۲۱۔

[2] فتح الباری، ص: ۱۷۲،ج۱۱۔

[3] ۲/البقرۃ: ۱۱۵۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:182

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ