السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
قبر کی شناخت کے لیے اس پر کتبہ لگایا جا سکتا ہے یا نہیں؟ آج کل قبروں پر پتھر کی تختی لگائی جاتی ہے جس پر میت کا نام ولدیت اور تاریخ وفات درج ہوتی ہے، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قبر کی شناخت کے لیے اس پر کوئی پتھر وغیرہ رکھا جا سکتا ہے یا لکڑی گاڑی جا سکتی ہے اس میں چنداں حرج نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کو دفن کرنے کے بعد ان کی قبر پر ایک بھاری پتھر رکھا اور فرمایا: ’’اس نشانی سے میں اپنے بھائی کی قبر کو پہچان لوں گا اور اس کے اہل میں سے جو فوت ہو گا اس کے قریب ہی دفن کروں گا۔‘‘[1]
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی قبر پر بطور علامت ایک بھاری پتھر رکھا تھا۔ [2]
لیکن قبر پر کتبہ لگانا، تختی پر اس کا نام، ولدیت اور تاریخ وفات لکھ کر قبر پر لگانا کسی صورت میں جائز نہیں ہے کیونکہ حدیث میں اس کی بطور خاص ممانعت ہے چنانچہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر پر کوئی بھی تحریر لکھنے سے منع فرمایا ہے۔ [3]
اس حدیث کے مطابق قبر پر لکھنا یا کتبہ لگانا حرام ہے البتہ اس کی شناخت کے لیے کوئی جائز علامت رکھی جا سکتی ہے وہ پتھر ہو یا لکڑی، اسے رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (واللہ اعلم)
[1] ابوداود، الجنائز: ۳۲۰۶۔
[2] ابن ماجہ، الجنائز: ۱۵۶۱۔
[3] ابن ماجہ، الجنائز: ۱۵۶۳۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب