سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(169) بیوی کا مردہ خاوند کو غسل دینا

  • 19818
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-02
  • مشاہدات : 704

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں نے ایک پمفلٹ میں پڑھا ہے کہ اگر بیوی فوت ہو جائے تو خاوند اسے غسل نہ دے کیونکہ وہ بیوی کی وفات کے بعد اس کے لیے غیر محرم ہو جاتا ہے لیکن جب خاوند فوت ہو جائے تو بیوی اسے غسل دے سکتی ہے کیونکہ وہ دوران عدت مرنے والے کی بیوی رہتی ہے، قرآن و حدیث کے مطابق اس مسئلہ کی وضاحت کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

پمفلٹ کے حوالے سے سوال میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے، اس کا تعلق رائے اور قیاس سے ہے، قرآن و حدیث سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ شریعت میں اس کے خلاف حکم ہے۔ کیونکہ ہماری شریعت میں میاں بیوی ایک دوسرے کو غسل دینے کے زیادہ حقدار ہیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا تھا: ’’اگر تو مجھ سے پہلے فوت ہو گئی تو میں تمہیں غسل دوں گا۔‘‘ [1]

 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک دوسری روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’اگر مجھے اپنے اس معاملہ کا پہلے علم ہو جاتا جس کا مجھے تاخیر سے علم ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی ازواج ہی غسل دیتیں۔ [2]

 حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے وصیت کی تھی کہ مرنے کے بعد انہیں ان کے خاوند حضرت علی رضی اللہ عنہ غسل دیں چنانچہ ان کی وفات کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ہی ان کو غسل دیا تھا۔ [3]

 ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ اس آدمی پر رحم کرے جسے مرنے کے بعد اس کی بیوی غسل دے اور اسے پرانے کپڑوں میں کفن دیا جائے، چنانچہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو ان کی بیوی حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے غسل دیا تھا اور انہیں استعمال شدہ کپڑوں میں کفنایا گیا تھا، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس امر کی وصیت کی تھی چنانچہ وہ اکیلی غسل دینے میں کمزور تھیں، اس لیے انہوں نے ان کے بیٹے حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کا تعاون لیا تھا۔ [4] امام بیہقی نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے لیکن اس کے شواہد بھی ذکر کیے ہیں۔[5]علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے اس عمل پر کوئی انکار نہیں کیا تو یہ عمل اجماع کی مانند ہے۔[6]

 جمہور اہل علم بھی اس کے قائل ہیں البتہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ مرد اپنی بیوی کو غسل نہیں دے سکتا حتیٰ کہ اگر خاوند کے علاوہ وہاں غسل دینے والا کوئی دوسرا نہ ہو تو پھر بھی اسے غسل دینے کی اجازت نہیں بلکہ بیوی کو تیمم کرائے تاہم بیوی اپنے خاوند کو غسل دے سکتی ہے۔ [7]

 بہرحال سوال میں جو موقف پیش کیا ہے، اسے احناف نے عقلی طور پر اختیار کیا ہے، کتاب و سنت میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ (واللہ اعلم)


[1] ابن ماجہ، الجنائز: ۱۴۶۵۔

[2] ابوداود، الجنائز: ۱۳۴۱۔

[3] دارقطنی،ص: ۷۹،ج۲۔

[4] بیہقی،ص: ۳۹۷،ج۳۔

[5] تعلیق روضۃ الندیہ،ص: ۴۳۰،ج۱۔

[6] نیل الاوطار، ص: ۶۷۶،ج۲۔

[7] المغنی،ص: ۴۱،ج۳۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:168

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ