سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(112) ظہر کی سنتیں اور ان کا طریقہ

  • 19761
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-19
  • مشاہدات : 4195

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز ظہر سے پہلے اور بعد کتنی سنتیں پڑھنی چاہئیں اور انہیں کس طرح ادا کرنا ہے، اگر چار رکعت ہیں تو ایک سلام سے پڑھی جائیں یا دو، دو رکعت پڑھنا افضل ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ظہر کی سنتوں کے متعلق مندرجہ ذیل تفصیل ہے۔

ظہر کی سنتوں کے متعلق مندرجہ ذیل تفصیل ہے:

٭ پہلے چار اور نماز کے بعد دو۔ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص دن اور رات میں (فرضوں کے علاوہ) بارہ رکعتیں پڑھے اس کے لیے بہشت میں گھر بنایا جاتا ہے، چار رکعت ظہر سے پہلے، دو رکعت اس کے بعد، دو رکعت مغرب کے بعد دو رکعت عشاء کے بعد اور دو رکعت فجر سے پہلے۔ [1]

٭ نماز ظہر سے پہلے چار اور اس کے بعد بھی چار۔ چنانچہ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص ظہر سے پہلے چار رکعتیں اور اس کے بعد چار رکعتیں باقاعدگی سے ادا کرتا رہے اللہ تعالیٰ اسے جہنم کی آگ پر حرام کر دے گا۔ [2] چار رکعت پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہر دو رکعت پر سلام پھیر دیا جائے جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سے پہلے چار رکعت اور بعد میں دو رکعت اور عصر سے پہلے بھی چار رکعت پڑھتے تھے اور ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیر کر فاصلہ کرتے تھے۔ [3] اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ظہر سے پہلے پڑھی جانے والی چار رکعت کو دو، دو کر کے پڑھنا چاہیے لیکن درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ظہر سے پہلے والی چار رکعت کو ایک سلام کے ساتھ ہی پڑھنا افضل ہے۔ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ظہر سے پہلے ایسی چار رکعتوں کے لیے جن میں سلام نہ ہو آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں۔[4]

 ہمارے رجحان کے مطابق ظہر سے پہلے چار رکعت اور اس کے بعد دو رکعت ادا کرنے کا معمول بنایا جائے اگر وقت کم ہو تو ظہر سے پہلے دو رکعت بھی پڑھی جا سکتی ہیں، فرصت کے لمحات ملنے پر ظہر کے بعد چار رکعت پڑھی جائیں، ظہر سے پہلے چار رکعت ایک سلام سے ادا کرنی چاہئیں، دو، دو کر کے پڑھنا بھی جائز ہے۔ (واللہ اعلم)


[1]  جامع ترمذی، الصلوٰۃ:۴۱۵۔

[2] ند امام احمد،ص:۳۲۶،ج۶۔ 

[3] جامع ترمذی، الصلوٰۃ:۴۲۹۔

[4]  ابوداود، الصلوٰۃ: ۱۲۷۰۔  

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

 

جلد3۔صفحہ نمبر 121

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ