سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(71) نماز میں ہاتھ باندھنے کا درست طریقہ

  • 19720
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-27
  • مشاہدات : 608

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

امسال حج کے موقع پر حکومت سعودیہ کی طرف سے حجاج کرام میں دینی کتب تحفہ کے طور پر تقسیم کی گئی ہیں ان میں مختصر زادالمعاد بھی ہے اس میں دوران نماز ہاتھوں کے متعلق لکھا ہے کہ دونوں ہاتھوں کے رکھنے کی جگہ کے بارے میں کوئی صحیح روایت ثابت نہیں۔(لیکن ابو داؤد  رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت کیا ہے کہ ہتھیلی کو ہتھیلی پر ناف کے نیچے باندھا جائے)اس کی وضاحت فرمائیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نماز میں قیام کے دوران ہاتھ باندھنے کی جگہ کے متعلق اگر چہ علماء کا اختلاف ہے لیکن راجح اور برحق یہ ہے کہ دوران قیام سینےپر ہاتھ باندھے جائیں جیسا کہ مندرجہ ذیل احادیث سے معلوم ہوتا ہے۔

1۔حضرت وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے انھوں نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ہمراہ نماز پڑھی تو آپ نے اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ پر اپنے سینے کے اوپر رکھا۔[1]

2۔حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ آدمی نماز میں اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں بازو پر رکھیں۔[2]

واضح رہے کہ جب بائیں بازو پر دایاں ہاتھ رکھا جائے گا تو دونوں ہاتھ خود بخود سینہ پر آجائیں گے۔

3۔امام طاؤس  رحمۃ اللہ علیہ  بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ پر رکھتے پھر انھیں اپنے سینے پر باندھتے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  حالت نماز میں ہوتے۔[3]

علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ  اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ حدیث اگرچہ مرسل ہے تاہم تمام  علماء کے ہاں قابل حجت ہے، کیونکہ یہ دوسری سندوں سے متصل بھی بیان ہوئی ہے۔[4]

اس لیے سوال میں مذکورہ کتاب کے حوالے سے لکھا گیا ہے وہ محل نظر ہے، البتہ بریکٹ میں ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ  کی ایک روایت کا حوالہ دیا گیا ہے کہ ہاتھوں کو ناف کے نیچے رکھا جائے۔ یہ اصل کتاب مختصر داز المعاد میں نہیں بلکہ مترجم نے اپنی طرف سے لکھا ہے غالباً اسی لیے اس عبارت کو بریکٹ میں رکھا گیا ہے تاہم جس حدیث کا حوالہ دیا گیا ہے وہ قابل حجت نہیں ہے کیونکہ اس کی سند میں ایک راوی عبد الرحمٰن بن اسحاق کوفی ضعیف ہے، امام نووی رحمۃ اللہ علیہ  نے اس راوی کو بالا تفاق ضعیف قراردیا ہے۔[5]

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ  اس روایت کے متعلق لکھتے ہیں کہ اس کے ضعیف ہونے پر علماء کا اتفاق ہے۔[6]

بہر حال اس مسئلہ میں سب سے زیادہ صحیح روایت حضرت وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہے جس کا ہم نے گزشتہ سطور میں حوالہ دیا ہے۔[7]


[1] ۔صحیح ابن خزیمہ،ص:243۔ج۔1۔

[2] ۔صحیح بخاری،الاذان:74۔

[3] ۔ابو داؤد،الصلوٰۃ:759۔

[4] ۔ارواءالغلیل،ص:71۔ج2۔

[5] ۔شرح مسلم نووی،ص:105۔ج3۔

[6] ۔خلاصہ،ص:359۔ج1۔

[7] ۔نیل الاوطار،ص:11،ج2۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:94

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ