سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(38) باریک جرابوں پر مسح کرنا

  • 19687
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 662

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

باریک جرابوں پر مسح کرنےکے متعلق شریعت کیا حکم دیتی ہے، قرآن و حدیث میں مسح کے متعلق کیا شرائط ہیں۔کہ وہ جرابیں کس طرح کی ہوں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عام طور پر جرابوں کے دو فائدے ہوتے ہیں ایک تو یہ کہ وہ سردی وغیرہ سے بچاؤ کاکام دیں اور دوسرے یہ کہ گردوغبار سے پاؤں کو محفوظ رکھیں۔جب تک جراب اس طرح کے دو فائدے دیتی ہے تو اس پر مسح کیا جا سکتا ہے۔ اگر جراب اس قدر پھٹی ہوئی ہے کہ اسے پہن کر نہ سردی کا بچاؤ ہوتا ہے اور نہ ہی گردو غبار سے پاؤں محفوظ رہتا ہے تو ایسی جراب پر مسح نہیں کرناچاہیے ۔ اس کے موٹے ہونے کے متعلق فقہ کی کتابوں میں جو معیار قائم کیا گیا ہے وہ ایجاد شدہ اور خود ساختہ ہے، قرآن و حدیث سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ جرابوں پر مسح کرنارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے غسل سے ثابت ہے، چنانچہ حضرت مغیرہ بن شعبہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے وضو کیا تو اپنے جوتوں اور جرابوں پر مسح کیا۔[1]

کبار صحابہ جیسے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ،حضرت عبد اللہ بن مسعود  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے جرابوں پر مسح کرنا احادیث سے ثابت ہے، جب یہ عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اور بلند مرتبہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  سے ثابت ہے تو پھر جرابوں پر مسح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ واضح رہے کہ مقیم آدمی کے لیے ایک دن اور ایک رات جب کہ مسافر انسان کے لیے تین دن اور تین رات تک مسح کرنے کی اجازت ہے اس کے لیے شرط یہ ہے کہ وضو کرنے کے بعد جرابوں کو پہناجائے اور جب وضو ٹوٹ جائے تو مسح کی مدت کا آغاز ہو جا تا ہے یعنی وضو کرنے کے بعد پاؤں دھونے کے بجائے اس پر مسح کر لیا جائے۔(واللہ اعلم)


[1] ۔بو داؤد،الطہارۃ:159۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:63

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ