السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک لڑکی شادی کی عمر کو پہنچ گئی اور اس کا کوئی ولی نہیں ہے۔ جو اس کی شادی کرائے اور نہ ہی شہر میں کوئی قاضی ہے تو کیا امیر شہر قاضی کاقائم مقام بن کر اسکا نکاح کرواسکتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
لڑکی کا نکاح کرانے کے لیے لوگوں میں سے سب سے زیادہ ولایت کا حقدار اس کا باپ ہے،پھر اس کے باپ کا باپ۔یعنی دادا اوپر تک،پھر اس کا بیٹا نیچے تک ،پھر اس کا سگا بھائی،پھر اس کا علاقی بھائی،پھر اس سےقریب والا اور اس قریب والا عصبات میں سے اسی قرابت پر جو ترتیب وراثت میں ہوتی ہے۔پھر بادشاہ جس کا نائب حاکم شرعی ہوتا ہے۔لیکن امیر تو ولی امر کی طرف سے اس کی نیابت داری امور میں ہوگی،اور قضا کے احکام نافذ کرنے میں،مذکورہ مسئلہ میں جو بات واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ امیر کو ایسی عورتوں پرولایت کا حق نہیں ہے۔جن عورتوں کاولی نہیں،ان کی ولایت کاحق قاضی کو ہے جب ان کے اہل میں سے ان کا کوئی ولی نہ ہو،اور ہمارے شہروں میں سے کوئی شہر ایسا نہیں جہاں قاضی نہ ہو،یا تو شہر میں قاضی ہے یا وہ قضا میں کسی دوسرے شہر کا تابع ہے جس میں قاضی موجود ہے۔(سعودی فتویٰ کمیٹی)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب