سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(366) جو عورت طواف افاضہ اور وداع کیے بغیر اپنے وطن لو ٹ گئی اس کے حج کا حکم

  • 19214
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-05
  • مشاہدات : 1237

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

گذشتہ سال میں فریضہ  حج کی ادائیگی کے لیے گئی اور میں نے طواف افاضہ اور وداع کے علاوہ تمام مناسک حج اداکیے کیونکہ ایک شرعی عذر نے مجھے ان کی ادائیگی سے روکا،پس میں اس نیت کے ساتھ کہ میں کسی دن دوبارہ آکرطواف کرلوں گی،اپنے شہر مدینہ منورہ لوٹ گئی،چونکہ میں دینی امور سے ناواقف تھی اس لیے میں ہر چیز سے طلاق ہوگئی اور میں نے ہر وہ کام کرلیا جودوران احرام حرام ہوتاہے۔میں نے واپس جا کرطواف کرنے کے متعلق سوال کیا تو مجھے بتایا گیا کہ تیرے لیے طواف کرنا جائز نہیں کیونکہ تو نے اپناحج فاسد کرلیا ہے اور تجھ پر اس کا ا عادہ لازم ہے،یعنی آئندہ سال گائے یا اونٹ کی قربانی دیتے ہوئے دوبارہ حج کرنالازمی ہے توکیا یہ صحیح ہے؟کیا اس کا کوئی اور حل ہے؟اور کیا میرا  حج فاسد ہوگیاہے؟اور کیا مجھ پر حج کو لوٹانا لازمی ہے؟مجھے بتایا جائے کہ مجھ پر کیاکرنا واجب ہے؟ اللہ تعالیٰ آپ کو برکت عطا فرمائے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ بھی ان بیماریوں میں سے ہے جو بغیر علم کے فتویٰ دینے سے حاصل ہوتی ہیں۔اس حالت میں آپ پر لازم یہ ہے کہ آپ مکہ جائیں اور صرف طواف افاضہ کر لیں۔رہا طواف وداع تو وہ آپ پر مکہ سے نکلتے وقت حیض کی حالت میں ہونے کی وجہ سے لازم نہیں ہے ۔کیونکہ حائضہ پر طواف وداع لازم نہیں ہے،دلیل ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی یہ حدیث ہے:

" أُمِرَ النَّاسُ أَنْ يَكُونَ آخِرُ عَهْدِهِمْ بِالْبَيْتِ إِلَّا أَنَّهُ خُفِّفَ ، عَنِ الْمَرْأَةِ الْحَائِضِ "[1]

"آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے لوگوں کو حکم دیا کہ ان کا آخری وقت بیت اللہ کے ساتھ (طواف وداع کرتے ہوئے) گزرنا چاہیے ،البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے حائضہ سے اس کی تخفیف کردی۔"

اور ابو داود رحمۃ اللہ علیہ  کی ایک روایت میں ہے:

" أَنْ يَكُونَ آخِرُ عَهْدِهِمْ بِالْبَيْتِ الطواف"[2]

"ان کا آخری وقت بیت اللہ کے ساتھ طواف(کرتے ہوئے صرف) ہو۔"

نیز اس لیے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کو بتایا گیا کہ صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   طواف افاضہ کرچکی ہیں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

" فَلْتَنْفِرْ إِذًا "[3]"تب وہ(بغیر طواف وداع کیے ہوئے) روانہ ہوجائے۔"

یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ حائضہ سے طواف وداع ساقط ہے۔رہا طواف افاضہ تووہ آپ کو لازمی طور پر کرنا ہی پڑے گا۔اور جب تو لا علمی کی وجہ سے ہر چیز سے حلال ہوگئی تو یہ بھی آپ کے حق میں نقصان دہ نہیں ہے،اس لیے کہ جو بھی احرام کے دوران ممنوع کاموں میں سے کسی کام کا لا علمی کی بنیاد پر ارتکاب کرلیتا ہے ،اس پر کچھ بھی واجب نہیں ہوتا،کیونکہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

﴿رَبَّنا لا تُؤاخِذنا إِن نَسينا أَو أَخطَأنا...﴿٢٨٦﴾...سورة البقرة

"اے ہمارے رب!ہم سے مواخذہ نہ کر اگر ہم بھول جائیں یاخطا کرجائیں۔"

بندے کی طرف سے اس دعاکے بعداللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

"میں نے ایسے ہی کیا۔"

یعنی میں نسیان وغلطی سے کیے ہوئے کام پر نہیں پکڑوں گا۔نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَلَيسَ عَلَيكُم جُناحٌ فيما أَخطَأتُم بِهِ وَلـٰكِن ما تَعَمَّدَت قُلوبُكُم ... ﴿٥﴾... سورةالأحزاب

"اور تم پر اس میں کوئی گناہ نہیں جس میں تم نے خطا کی اور لیکن جو تمہارے دلوں نے ارادے سے کیا۔"

پس وہ تمام ممنوعہ کام جن کو کرنے سے اللہ نے محرم کو منع کیاہے ،جب وہ لا علمی میں بھول کریا مجبوراً ان کا ارتکاب کرے گا تو اس پر کچھ بھی واجب  نہیں ہوگا،لیکن جب اس کا عذر ختم ہوجائے تو اس پر عمل سے بازآنا واجب ہوگا۔(فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثمین  رحمۃ اللہ علیہ )


[1] ۔صحیح البخاری رقم   الحدیث(1668) صحیح مسلم رقم الحدیث(1328)

[2] ۔صحیح سنن ابی داود ر قم الحدیث(2002)

[3] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث(4140)

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

عورتوں کےلیے صرف

صفحہ نمبر 318

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ