السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جلسہ استراحت کا کیا حکم ہے؟جب امام جلسہ استراحت نہ کرتا ہوتو کیا مقتدی امام کی مخالفت کرتے ہوئے جلسہ استراحت کرے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جلسہ استراحت سنت ہے،اس مسئلہ میں علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کی اپنی کتاب زاد المعاد میں نقل کردہ بحث سے د ھوکا نہیں کھانا چاہیے کہ انھوں نے یہ ذکر کیا ہے کہ بلاشبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ضرورت کی وجہ سے جلسہ استراحت کیا تھا اور یہ عام لوگوں کے لیے مسنون ومشروع نہیں ہے۔
ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول صحیح بخاری وغیرہ کی ثابت شدہ اس روایت کے خلاف ہے جس میں یہ بیان ہے کہ ابو حمید ساعدی نے ایک دن اپنے ساتھیوں کو کہا،جبکہ وہ بیٹھے ہوئے تھے:"کیا میں تم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسی نماز پڑھ کر نہ دکھاؤں؟"صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے کہا:"تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کو ہم سے زیادہ جاننے والا نہیں ہے،"ابوحمید نے کہا:"کیوں نہیں(میں جاننے والا ہوں)"انہوں نے کہا:"اچھا تو پیش کرو،"تو انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھ کر ان کو بتائی اور جب وہ دوسرے سجدے سے کھڑے ہونے لگے تو انھوں نے جلسہ استراحت کیا،پھر(دوسری رکعت کے لے) اٹھے اور اس طرح انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری نماز بیان کی تو دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے جواب دیا:
"تو نے سچ بیان کیا ہے ،واقعتاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ایسی ہی تھی۔"
پس ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے لوگ سات صدیوں کے گزر جانے کے بعد اس جلسہ استراحت کی علت بیان کرنے چلے ہیں جبکہ ابو حمید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہیں،پس وہ وہی کچھ بیان کرتے ہیں جو انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے ہوئے دیکھا ہے،وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق زیادہ جانتے ہیں اور انھوں نے یہ جلسہ استراحت کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی سیکھا تھا۔امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب"المجموع شرح المھذب" میں اس موقف کی تائید کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کو یہ لائق ہے کہ وہ جلسہ استراحت والی سنت کی محافظت کا اہتمام کریں کیونکہ یہ سنت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔
اور جب امام جلسہ استراحت نہ کرے تو مقتدی کو اس کی پیروی کرنی چاہیے کیونہ امام کی پیروی کرنا نماز کے واجبات میں سے ایک واجب ہے،جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه عَنْ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ : إنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَلا تَخْتَلِفُوا عَلَيْهِ ، فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا , وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا ، وَإِذَا قَالَ : سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ , فَقُولُوا : رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ ، وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا ، وَإِذَا صَلَّى جَالِساً فَصَلُّوا جُلُوساً أَجْمَعُونَ ."[1]
"امام تو صرف اس لیے بنایا گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے تو جب وہ اللہ اکبر کہے تو تم بھی اللہ اکبر کہو،اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو،اور جب وہ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہے تو تم کہو: رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو اور جب وہ کھڑا ہوکر نماز پڑھائے تو تم بھی کھڑے ہوکرنماز پڑھو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھائے تو تم سب بیٹھ کر نماز اداکرو۔"
پس یہ حدیث امام کی اقتدا کے ضروری ہونے کی تائید کرتی ہے۔[2]
(علامہ ناصرالدین البانی رحمۃ اللہ علیہ )
[1] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث (371)
[2] ۔اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام کی اقتدا انھی امور میں کی جائے گی جو مذکورہ بالا حدیث میں مذکورہیں۔اور ایسے امور میں امام کی پیروی درست نہیں جو وہ سنت کےخلاف ادا کرے،کیونکہ امام کی پیروی صرف انہی احکام میں درست ہے جو شرعاً صحیح ہیں نہ کہ ان امور میں جن میں امام سنت کی خلاف ورزی کر تا ہے۔لہذااگرامام مسنون جلسہ استراحت نہیں کرتا تو اس کی پیروی نہیں ہوگی کیونکہ وہ خلاف سنت امر کا ارتکاب کرتاہے۔بلکہ مقتدی مسنون جلسہ استراحت پر عمل کرے گا۔(مترجم)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب