السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
انسان سفر میں کب قصر نماز ادا کرے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کتاب اللہ اورحدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں کوئی ایسی صریح نص موجود نہیں ہے کہ جس کو مسافر کے نماز قصر کرنے کی مسافت قطعی طور پر طے کرنے میں نص قرار دینا ممکن ہو یا وہ اس سفر کو ہی متعین کرتی ہو جس میں انسان قصر نماز ادا کرے۔اس مسئلہ میں صرف ترجیح سے فیصلہ کیا جاتا ہے اور ہم ان لوگوں کے ساتھ ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ مطلق سفر سفر ہے،اس پر سفر اور مسافر کے احکام جاری ہوتے ہیں۔یہ موقف اللہ تعالیٰ کے اس طرح کے فرمان سے اخذ کیا گیا ہے:
﴿فَمَن كانَ مِنكُم مَريضًا أَو عَلىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِن أَيّامٍ أُخَرَ ...﴿١٨٤﴾... سورةالبقرة
"پھر تم میں سے جو بیمار ہو یا کسی سفر پر ہوتو ددسرے دنوں سے گنتی پوری کرنا ہے۔"
تو جس طرح اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مطلق مرض کو مطلق بیان کیا ہے،ایسے ہی سفر کو بھی مطلق ہی بیان کیا ہے ،جو بھی سفر ہو خواہ لمبا ہو یا چھوٹا،وہ سفر ہی ہے،اس پر سفر کے احکام مرتب اور لاگو ہوں گے، اور اس کے بعد مسافت کو نہیں دیکھا جائے گا۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے احکام سفر کے متعلق خاص رسالے میں اسی قول کو پسند کیا ہے۔جب مسافر اپنے شہر سے روانہ ہو اس پر مسافر کے احکام لاگو ہوجاتے ہیں،پس جب وہ شہر میں،جس کا اس نے قصد وارادہ کیا تھا ،اقامت کرے گا تو وہ زیادہ دن وہاں اقامت کرے یا کم دن وہ مسافر ہی شمار ہوگا جب تک کہ وہ وہاں مستقل اقامت کا ارادہ نہ کرلے۔
لیکن جب وہ اقامت کی نیت و ارادہ نہ کرے بلکہ اپنے دل میں کہے:میں آج یہاں سے روانہ ہوجاؤں گا یا کل روانہ ہوجاؤں گا تو اس طرح اس شہر میں ،جس کی طرف وہ سفر کرکے گیا ہے، جتنی لمبی مدت بھی ہوجائے وہ مسافر ہی شمار ہوگا۔
اور یقیناً یہ بات بھی ثابت ہے کہ جب صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین خراسان کی طرف جہاد فی سبیل اللہ کے لیے روانہ ہوئے تو اتنی شدید برف باری ہوئی کہ ان پر اپ نے ملک واپس لوٹنے کا راستہ منقطع ہوگیا،لہذا وہ چھ مہینے تک وہاں پر مقیم رہے،اس دوران وہ قصر نماز ہی ادا کرتے رہے۔(علامہ ناصر الدین البانی رحمۃ اللہ علیہ )
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب