سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(199) سجدے میں جاتے ہوئے پہلے گھنٹے لگائے جائیں یا ہاتھ؟

  • 19046
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-19
  • مشاہدات : 1168

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا نمازی سجدے میں جاتے ہوئے پہلے گھنٹے لگائے یا ہاتھ  لگائے اور پھر گھٹنے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

امام ابو داود رحمۃ اللہ علیہ  نے قوی سند کے ساتھ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت کی ہے ،کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"إذَا سَجَدَ أَحَدُكُمْ فَلَا يَبْرُكْ كَمَا يَبْرُكُ الْبَعِيرُ وَلْيَضَعْ يَدَيْهِ قَبْلَ رُكْبَتَيْهِ"[1]

"جب تم میں سے کوئی شخص سجدہ کرے تو وہ اونٹ کی طرح نہ بیٹھے بلکہ وہ گھنٹوں سے پہلے ہاتھ زمین پر رکھے۔"

بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ یہ حدیث مقلوب ہے،یعنی راوی یہ کہنا چاہتا تھا کہ وہ ہاتھوں سے پہلے گھنٹے رکھے تو ان کے خیال میں حدیث میں الفاظ الٹ گئے ہیں کیونکہ جب اونٹ بیٹھتا ہے تو وہ اپنے ہاتھوں پر بیٹھتا ہے اور اس کے ہاتھوں میں اس کے  گھنٹے ہیں ،نہ کہ پچھلی ٹانگوں میں لیکن اس طرح وہ انسان سے مختلف طریقے سے بیٹھتا ہے ،اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"إذا سجد أحدكم فلا يبرك كما يبرك البعير"

" جب تم میں سے کوئی سجدہ کرنا چاہے تو وہ اونٹ کی طرح نہ بیٹھے۔"

یعنی وہ اپنے گھنٹوں پر نہ بیٹھے جن پر کہ اونٹ بیٹھتا ہے بلکہ وہ پہلے ہاتھ زمین پر ٹکائے اور  پھر گھنٹے۔

اس حدیث کی مخالفت کرنے والوں کی دلیل وہ حدیث ہے جس کو ابوداود وغیرہ نے وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی روایت سے بیان کیا ہے:

"رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا سجد وضع ركبتيه قبل يديه"[2]

"بلاشبہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کو دیکھا: جب سجدہ کرتے تو ہاتھوں سے پہلے گھٹنوں کو رکھتے۔"

لیکن یہ حدیث شریک بن عبداللہ قاضی کے واسطے سے مروی ہے ،اور وہ اگرچہ سچا راوی ہے مگر علمائے حدیث کااس بات پر اتفاق ہے کہ وہ سئی الحفظ( کمزور حافظے والا) ہے۔

اسی لیے امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ  نے جب اپنی صحیح میں اس شریک سے روایت کی تو کسی دوسرے ثقہ راوی کے ساتھ ملا کر روایت کی اور یہ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ  کی طرف سے اشارہ ہے کہ جس روایت میں شریک مفرد ہوگا وہ حجت نہیں ہوگی،لہذا مذکورہ حدیث اپنی سند کے اعتبار سے ضعیف ہے۔(علامہ ناصر الدین البانی رحمۃ اللہ علیہ )


[1] ۔صحیح سنن ابی داود رقم الحدیث(840)

[2] ۔ضعیف سنن بی داود رقم الحدیث(838)

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

عورتوں کےلیے صرف

صفحہ نمبر 194

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ