السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک عورت کو ہر مہینہ کے شروع میں چھ دن حیض آتا تھا پھر اس کو مسلسل خون آنے لگا اس کا کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ عورت جس کو ہر ماہ کے شروع میں چھ دن حیض آتا تھا اور اس پر مسلسل خون طاری ہوگیا اس پر لازم ہے کہ وہ ہر ماہ کے شروع میں چھ دن بیٹھے اور اس پر ان چھ دنوں میں حیض کے احکام لاگو ہوں گے اور جو امام اس کے علاوہ ہیں وہ استحاضہ کے ایام شمار ہوں گے لہٰذا ان میں عورت غسل کر کے نماز ادا کرے گی اور ان زائد ایام کے خون کی کوئی پرواہ نہیں کرے گی کیونکہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنت ابی حبیش نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !میں مستحاضہ ہوتی ہوں اور پاک نہیں ہو تی تو کیا میں نماز چھوڑدوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"لا، إنَّ ذَلِك عِرْق، وَلَكن دَعِي الصَّلاةَ قَدْرَ الأيام، الَّتي كُنْتِ تَحِيضِينَ فِيهَا، ثُمَّ اغتَسِلي وَصَلي".[1]
"نہیں بلا شبہ یہ تو رگ کا خون ہے لیکن تم ان ایام میں نمازیں چھوڑو جن میں تم حائضہ ہوا کرتی تھی پھر غسل کر کے نماز ادا کرو۔"(اس روایت کو بخاری نے بیان کیا ہے)
اور مسلم میں یہ روایت یوں مروی ہے کہ بلاشبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ام حبیبہ بنت حجش رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو کہا:
"امْكُثِي قَدْرَ مَا كَانَتْ تَحْبِسُكِ حَيْضَتُكِ ثُمَّ اغْتَسِلِي " .[2]
"تم اتنی مدت ہی رکی رہو جتنی مدت تجھے تیرا حیض روکتا تھا پھر غسل کرو اور نماز ادا کرو۔"(فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمۃ اللہ علیہ )
[1] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث (319)
[2] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث (334)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب