السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا مرد اور عورت کے غسل جنابت میں فرق ہے؟کیا عورت کے لیے اپنے بالوں کو کھولنا ضروری ہے یا حدیث کی رو سے تین لپ ڈالنا کافی ہے؟نیز غسل جنابت اور غسل حیض میں کیا فرق ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مرد اور عورت کے لیے غسل جنابت کے طریقے میں کوئی فرق نہیں ہے۔غسل کرتے وقت ان دونوں کے لیے اپنے بالوں کو کھولنے کی ضرورت نہیں بلکہ اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنے سر پر تین چلو پانی ڈالیں اور پھر سارے جسم پر پانی بہالیں۔
دلیل اس کی وہ حدیث ہے جس میں یہ بیان ہے کہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی:میں اپنے سر کی مینڈھیاں مضبوط بناتی ہوں تو کیا میں جنابت کے غسل کے لیے ان کو کھولا کروں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"لا ، إِنَّمَا يَكْفِيكِ أَنْ تَحْثِي عَلَى رَأْسِكِ ثَلاثَ حَثَيَاتٍ ، ثُمَّ تُفِيضِينَ عَلَيْكِ الْمَاءَ فَتَطْهُرِينَ ."[1]
"مینڈھیاں کھولنے کی ضرورت نہیں،بس اتنا ہی کافی ہے کہ تو اپنےسر پر تین چلو پانی ڈالے اور پھر باقی جسم پر پانی بہالے تو اس طرح تو پاک ہوجائے گی۔"
اس حدیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے۔البتہ اگر مرد یا عورت کے سر پر تیل یا مہندی اس طرح لگے ہوں کہ یہ پانی کو سر کے چمڑے تک پہنچنے سے روک دیں تو ان کا ازالہ کرناضروری ہے اوراگر یہ اتنے ہلکےہوں کہ پانی کو چمڑے تک پہنچنے سے نہ روکیں تو ان کو اتارنے کی چنداں ضرورت نہیں۔
جہاں تک عورت کے غسل حیض کا تعلق ہے تو اس میں عورت کے لیے اپنے بالوں کو کھولنے میں اختلاف ہے لیکن صحیح بات یہی ہے کہ غسل حیض میں بھی بالوں کو کھولنے کی ضرورت نہیں کیونکہ صحیح مسلم میں ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حدیث بعض سندوں میں اس طرح مروی ہے کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیاتھا کہ میں ایک ایسی عورت ہوں جو اپنے سر کی مینڈھیاں مضبوطی سے باندھتی ہوں تو کیا میں غسل حیض اور غسل جنابت کے لیے ان کو کھولا کروں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"نہیں تو!تمھیں بس اتنا ہی کافی ہے کہ تو اپنے سر پر تین چلو پانی ڈال،پھر اپنے جسم پر پانی بہالے تو تو پاک ہوجائے گی۔"
تو یہ حدیث دلیل ہے کہ حیض اور جنابت کے غسل میں بالوں کو کھولنا واجب نہیں لیکن عورت کے لیے مناسب یہ ہے کہ وہ غسل حیض میں احتیاطاً اپنے بالوں کو کھول لے تاکہ اختلاف سے بچا جائے اور مختلف دلائل میں تطبیق اور موافقت پیدا ہوجائے۔(سعودی فتویٰ کمیٹی)
[1] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث(330)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب