سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(912) پردہ دار کا مذاق اڑانا

  • 18519
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-19
  • مشاہدات : 761

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر کوئی کسی مسلمان پردہ دار خاتون کا مذاق اڑائے تو اس کا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر کوئی شخص کسی مسلمان مرد یا عورت کا صرف اس وجہ سے مذاق اڑائے کہ وہ شریعت اسلامیہ پر عمل کرتا ہے/کرتی ہے، اس کا تعلق شرعی پردے سے ہو یا کسی اور عمل سے، تو ایسا آدمی کافر ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ غزوہ تبوک کے موقع پر ایک مجلس میں ایک شخص نے (مسلمانوں پر اعتراض کرتے ہوئے) یوں کہا: میں نے اپنے قاریوں جیسا کسی کو نہیں دیکھا۔ یہ لوگ بڑے بڑے پیٹوں والے، زبانوں کے بڑے جھوٹے اور دشمن کے مقابلے میں سب سے بڑھ کر بزدل ہیں۔ اس پر ایک شخص نے اس سے کہا: تو جھوٹ بکتا ہے بلکہ تو خود منافق ہے، میں تیری یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ضرور کہوں گا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات پہنچ گئی اور آیات بھی نازل ہوئیں۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر میں نے اسے دیکھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کے کجاوے سے چمٹا ہوا تھا، پتھر اسے زخمی کر رہے تھے اور وہ کہے جا رہا تھا: اے اللہ کے رسول! ہم تو بس ہنسی کھیل کی بات (مذاق) کر رہے تھے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے:

﴿قُل أَبِاللَّهِ وَءايـٰتِهِ وَرَسولِهِ كُنتُم تَستَهزِءونَ ﴿٦٥ لا تَعتَذِروا قَد كَفَرتُم بَعدَ إيمـٰنِكُم إِن نَعفُ عَن طائِفَةٍ مِنكُم نُعَذِّب طائِفَةً بِأَنَّهُم كانوا مُجرِمينَ ﴿٦٦﴾... سورة التوبة

’’کیا بھلا تم اللہ تعالیٰ، اس کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ مذاق کر رہے تھے؟ معذرتوں کی کوئی ضرورت نہیں، تم اپنے ایمان کے بعد کافر ہو چکے ہو۔ اگر ہم نے تمہارے ایک گروہ کو معاف کر بھی دیا تو دوسرے کو سزا دیں گے، اس لیے کہ وہ مجرم ہیں۔‘‘ (المعجم الکبیر للطبرانی:85/19،حدیث:173۔)

ان آیات میں اہل ایمان کے ساتھ مذاق کو اللہ تعالیٰ، اس کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ مذاق کرنا قرار دیا گیا ہے۔ اور حق کی توفیق اللہ کے پاس ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 645

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ