سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(874) لڑکی کے باپ نے لڑکے کی ماں کا دودھ پیا ہو؟

  • 18481
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-02
  • مشاہدات : 677

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک شخص ایک لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے، جبکہ لڑکی کے باپ نے نکاح کے طالب (خاطب) کے باپ کی بیوی کا دودھ پیا ہوا ہے۔ کیا یہ رشتہ ہو سکتا ہے؟ اور عورت کہتی ہے کہ مجھے معلوم نہیں کہ میں نے اسے کس قدر دودھ پلایا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس صورت میں لڑکی کا باپ خاطب کا پدری (رضاعی) بھائی بنتا ہے۔ اس طرح یہ لڑکی اس خاطب کی بھتیجی اور خاطب اس لڑکی کا چچا بن گیا۔ اور عورت کا یہ کہنا کہ میں نے دودھ تو پلایا ہے مگر معلوم نہیں کتنا پلایا ہے تو اس سے رضاعت کا حکم زائل ہو جاتا ہے۔ کیونکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ ’’شروع میں قرآن کریم میں دس معلوم رضعات کا حکم نازل ہوا تھا کہ ان سے حرمت رضاعت ثابت ہوتی تھی۔ پھر انہیں پانچ رضعات سے منسوخ کر دیا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو معاملہ اسی طرح تھا۔‘‘(صحیح مسلم،کتاب الرضاع،باب التحریم بخمس رضعات،حدیث:1452۔سنن الترمذی،کتاب الرضاع،باب ماجاءلاتحرم المصۃولاامصتان،ھدیث:1150وسنن النسائی،کتاب النکاح،باب القدر الذی یحرم الرضاعۃ،حدیث:3307۔)

اور جب عدد رضعات میں شک ہو جائے تو اس سے رضاعت کا حکم ثابت نہیں ہوتا ہے۔ ضروری ہے واضح طور پر پانچ رضعات (یعنی پانچ بار دودھ پیا جانا) ثابت ہو۔ البتہ ورع و تقویٰ کا تقاضا یہ ہے کہ یہ رشتہ چھوڑ دیا جائے۔ تاہم یہ لڑکی اس لڑکے کے لیے محرم نہیں بنے گی۔ کیونکہ رضاعت اس انداز سے ثابت نہیں ہوئی ہے جس سے حرمت ثابت ہوتی ہو۔ اگر لڑکا اس لڑکی سے نکاح کا اقدام کر ہی لے تو یہ گناہ گار نہیں ہو گا کیونکہ معلوم اور واضح طور پر رضاعت ثابت نہیں ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 613

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ