السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میری خالہ کہتی ہے کہ اس نے مجھے اور مجھ سے چھوٹی بہن کو دودھ پلایا ہے مگر مجھے اس رضاعت کا کوئی علم نہیں، اور نہ ہی اسے کچھ یاد رہے کہ کتنی بار پیا تھا، تو کیا میں اپنے خالو اور اپنی خالہ زاد کے سامنے کھلے منہ آ سکتی ہوں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
احتیاط اسی میں ہے کہ آپ ان کے سامنے کھلے منہ نہ ہوا کریں، اور اپنے کسی خالہ زاد کے ساتھ شادی بھی نہ کریں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ حرمت ان رضعات سے آتی ہے جو واضح طور پر پانچ ہوں۔ چونکہ یہاں مقدار معلوم نہیں ہے، تو ایسے امور میں احتیاط کا پہلو غالب رکھنا ضروری ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث میں غور کیجئے کہ فتح مکہ کے موقع پر سعد بن ابی وقاص اور عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہما کے درمیان ایک لڑکے کی تولیت کے بارے میں جھگڑا ہو گیا، اور یہ معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوا۔ اس میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا دعویٰ یہ تھا کہ یہ میرے بھائی عتبہ بن ابی وقاص کا بیٹا ہے، اس کے متعلق میرے بھائی نے مجھے وصیت کی تھی، اور عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ یہ لڑکا میرا بھائی اور میرے باپ (زمعہ) کا بیٹا ہے۔ دراصل عتبہ بن ابی وقاص نے کسی وقت زمعہ کی لونڈی کے ساتھ زنا کیا تھا اور یہ لڑکا اسی کا نتیجہ تھا، اور مرتے وقت اپنے بھائی کو وصیت کر گیا کہ اس زمعہ کی لونڈی کے لڑکے کو اپنی تولیت میں لے لینا، وہ مجھ سے ہے۔ اس معاملے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ، وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ ،وَاحْتَجِبِي مِنْهُ يَا سَوْدَةُ
’’یعنی لڑکا بستر والے کا ہے اور زانی کے لیے پتھر ہیں، اور اپنی اہلیہ سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ اس لڑکے سے پردہ کر لے۔‘‘ (صحیح بخاری،کتاب الخصومات،باب دعوی الوصی للمیت،حدیث:2289کتاب البیوع،باب تفسیر المشبھات،حدیث؛1948(یہ روایت بخاری میں متعدد مقامات پر مذکور ہے)صحیح مسلم،کتاب الرضاع،باب الولد للفراش وتوقی الشبھات،حدیث:1457وسنن النسائی،کتاب الطلاق،باب الحاق الولد بالفراش،حدیث:3484۔)
آپ نے بچہ تو عبد بن زمعہ کو دیا۔ اس جانب سے اگرچہ وہ سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا کا بھائی بنتا تھا، مگر (دعوائے زنا اور زانی کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے) سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ اس سے پردہ کر لو۔چنانچہ سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا کی وفات تک اس لڑنے نے سیدہ کو نہیں دیکھا تھا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب