السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک شخص نے اپنی ایک قرابت دار کے لیے نکاح کا پیغام دیا تو لڑکی کے والد نے یہ عذر کر کے انکار کر دیا کہ اس نے تمہارے ساتھ دودھ پیا ہے۔ پھر جب لڑکی کا والد فوت ہو گیا تو اس لڑکے نے اس لڑکی کے ساتھ شادی کر لی۔ جب کہ عادل گواہوں نے اس لڑکی کی ماں کے متعلق گواہی دی ہے کہ اس نے اس لڑکے کو دودھ پلایا ہے، مگر بعد میں اس عورت نے اپنی بات سے انکار کیا اور کہا کہ پہلے جو اس نے کہا تھا ایک مقصد اور غرض کے تحت کہا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان کا نکاح جائز ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر عورت حق سچ بولنے میں معروف ہو اور اس نے بتایا ہو کہ وہ اس لڑکے کو پانچ رضعات دودھ پلا چکی ہے، تو اس کی یہ بات مقبول ہو گی۔ اور اگر ان لڑکے لڑکی کا نکاح ہو چکا ہو تو ان میں تفریق کرا دی جائے، جیسے کہ علماء کا صحیح تر قول ہے۔ اور صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا کہ اپنی بیوی کو علیحدہ کر دے، اس وجہ سے کہ ایک سیاہ لونڈی نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ ان دونوں کو دودھ پلا چکی ہے۔ (صحیح بخاری،کتاب الشھادات،باب اذاشھد شاھد،حدیث:2640وسنن الترمذی،کتاب الرضاع،باب ماجاءفی شھادۃالمراۃالواحدۃفی الرضاع،حدیث:1151۔)
اور اگر عورت کی صداقت میں شبہ ہو یا عدد رضعات میں شک ہو تو بھی یہ معاملہ مشکوک قرار پائے گا، تو اس سے اجتناب بہتر ہے، تاہم جب تک کوئی معتبر دلیل نہ ملے ان میں تفریق کا حکم نہیں لگایا جا سکتا۔ اور اگر وہ عورت نکاح سے پہلے ہی اپنی شہادت سے پھر گئی ہو تو یہ زوجہ حرام نہیں ہو گی لیکن اگر معلوم ہو کہ یہ عورت اپنی شہادت سے رجوع میں جھوٹی ہے اور اس نے اپنی شہادت سے رجوع کیا ہے، اور پھر وہ شوہر بھی اس بیوی سے مجامعت کر چکا ہے، اور اس عورت نے اپنی گواہی چھپائی ہے، تو یہ زواج صحیح نہیں ہو گا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب