سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(867) دو عورتوں کا ایک دوسری کے بچوں کو دودھ پلانا

  • 18474
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-01
  • مشاہدات : 1035

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

دو عورتیں ہیں، ایک کے ہاں لڑکا اور دوسری کے ہاں لڑکی ہے، اور ان دونوں نے ایک دوسرے کے بچے کو دودھ پلایا ہے، تو ان میں سے کون کون ایک دوسرے کے لیے حلال ہو سکتے ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر کسی عورت نے کسی لڑکی کو اس کے ابتدائی دو سالوں میں واضح طور پر پانچ یا زیادہ بار دودھ پلایا ہو تو یہ لڑکی اس عورت اور اس کے شوہر کی، جس کی طرف عورت کا دودھ منسوب ہے، رضاعی بیٹی بن جائے گی۔ اور پھر اس عورت کی تمام اولاد جو اس شوہر (صاحب اللبن) سے ہو، یا کسی دوسرے شوہر سے بھی ہو، وہ سب اس لڑکی کے رضاعی بہن بھائی بن جائیں گے۔ اور اس صاحب اللبن شوہر کی تمام اولاد، اس دودھ پلانے والی بیوی سے ہو یا دوسری بیویوں سے، وہ اس دودھ پینے والی کے رضاعی بہن بھائی بن جائیں گے۔ اور مرضعہ (دودھ پلانے والی) کے بھائی اس لڑکی کے رضاعی ماموں اور شوہر (صاحب اللبن) کے بھائی اس لڑکی کے رضاعی چچا، مرضعہ کا والد اس کا نانا، اور اس کی ماں اس کی نانی، صاحب اللبن شوہر کا باپ اس لڑکی کا دادا، اور شوہر کی ماں اس کی دادی بن جائے گی۔ کیونکہ محرمات کے سلسلے میں سورہ النساء میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَأُمَّهـٰتُكُمُ الّـٰتى أَرضَعنَكُم وَأَخَو‌ٰتُكُم مِنَ الرَّضـٰعَةِ...﴿٢٣﴾... سورةالنساء

’’اور وہ عورتیں بھی حرام ہیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو اور تمہاری رضاعی بہنیں بھی۔‘‘

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعِ مَا يَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ

’’یعنی رضاعت سے وہ سب رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب سے حرام ہوتے ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری،کتاب الشھادات،باب الشھادۃعلی الانساب والرضاع،حدیث:2502وصحیح مسلم،کتاب الرضاع،باب تحریم الرضاعۃ من ماءالفحل،حدیث:1445۔سنن النسائی،کتاب النکاح،باب مایحرم من الرضاع،حدیث:3301وسنن ابن ماجہ،کتاب النکاح،باب یحرم من الرضاع مایحرم من النسب،حدیث:1937۔)

اور آپ  کا یہ فرمان بھی ہے:

لا رضاع الا فى الحولين

’’رضاعت وہی معتبر ہے جو (ابتدائی)  دو سال کے اندر اندر ہو۔‘‘

اور صحیح مسلم میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، بیان کرتی ہیں کہ: ’’قرآن مجید میں ابتدا میں دس معلوم (واضح) چوسنیوں کا حکم نازل ہوا تھا، جو حرمت کا باعث ہوتی تھیں، پھر انہیں پانچ معلوم چوسنیوں سے منسوخ کر دیا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو حکم (یا معاملہ) یہی تھا۔‘‘ (صحیح مسلم،کتاب الرضاع،باب التحریم بخمس رضعات،حدیث:1452وسنن الترمذی،کتاب الرضاع،باب ماجاءلا تحرم المصۃولاالمصتان،حدیث:1150۔سنن النسائی،کتاب النکاح،باب القدر الذی یحرم الرضاعة،حدیث:3309۔) (جامع ترمذی، اور اس حدیث کی اصل صحیح مسلم میں ہے)۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 607

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ