السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک عورت نے نذر مانی ہے کہ اگر اس کا حمل محفوظ رہا اور سلامتی کے ساتھ بچے کی ولادت ہوئی تو یہ ایک سال روزے رکھے گی۔ چنانچہ اس کا حمل محفوظ رہا ہے اور بچے کی ولادت بھی خیریت سے ہو گئی ہے مگر عورت اب اپنی نذر کے معاملے میں عاجزی کا اظہار کر رہی ہے کہ سال بھر روزے رکھنا اس کے لیے بہت مشکل ہے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس میں شک نہیں کہ کسی اطاعت کی نذر ماننا عبادت ہے، اور اللہ عزوجل نے ایسے اہل ایمان کی مدح فرمائی ہے:
﴿يوفونَ بِالنَّذرِ وَيَخافونَ يَومًا كانَ شَرُّهُ مُستَطيرًا ﴿٧﴾... سورة الدهر
’’یہ اہل ایمان وہ ہیں جو اپنی نذریں پوری کرتے اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی سختی پھیل رہی ہو گی۔‘‘
اور احادیث میں بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس نے نذر مانی ہو کہ وہ اللہ کی اطاعت کرے گا، اسے چاہئے کہ اللہ کی اطاعت (عبادت) کرے، اور جس نے یہ نذر مانی ہو کہ وہ اللہ کی نافرمانی کرے گا تو اسے معصیت کا کام نہیں کرنا چاہئے۔‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الایمان والنذر، باب النذر فی الطاعۃ، حدیث: 6696 و سنن ابی داود، کتاب الایمان والنذر، باب النذر فی المعصیۃ، حدیث: 3389 و سنن الترمذی، کتاب النذر والایمان، باب من نذر ان یطیع اللہ فلیطعہ، حدیث: 1526)
احادیث میں آتا ہے کہ ایک شخص نے نذر مان لی کہ وہ بوانہ مقام پر ایک اونٹ ذبح کرے گا، پھر وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے اس سے دریافت فرمایا:
’’کیا اس جگہ جاہلیت کا کوئی بت تو نہ تھا جس کی عبادت کی جاتی رہی ہو؟ کہا کہ نہیں۔ آپ نے پوچھا: کیا یہ جگہ اہل جاہلیت کی کسی عید کا مقام تو نہ تھی؟ کہا گیا۔ نہیں، تب آپ نے فرمایا: اپنی نذر پوری کر لو، بلاشبہ ایسی نذر کا کوئی پورا کرنا نہیں ہے جس میں اللہ کی نافرمانی ہو، اور نہ اس چیز میں جس کا ابن آدم مالک نہ ہو۔‘‘ (سنن اابی داود، کتاب الایمان والنذور، باب ما یومر من خاء النذر، حدیث: 3313 المعجم الکبیر للطبرانی: حدیث: 1341)
اور اس سوال میں جو پوچھا گیا ہے کہ عورت نے سال بھر رزے رکھنے کی نذر مانی ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ سال بھر مسلسل روزے رکھنا ’’صیام دہر‘‘ کی قسم سے ہے یعنی یہ زمانہ بھر روزے رکھنا ہے اور صیام دہر مکروہ اور ناجائز عمل ہے۔ صحیحین میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس نے زمانہ بھر روزے رکھے، اس نے نہ روزے رکھے نہ افطار کیا۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب استحباب ثلاثۃ ایام من کل شھر۔۔، حدیث: 1162 و سنن ابی داود، کتاب الصیام، باب فی صوم الدھر تطوعا، حدیث: 2425 فضیلة الشیخ) نے فرمایا: کہ یہ روایت صحیحین میں ہے جبکہ صحیح مسلم سے تو بعینہ الفاظ ملتے ہیں البتہ صحیح بخاری میں یہ الفاظ کہ "نہ اس نے افطر کیا' مجھے نہیں ملے البتہ "نہ اس نے روزہ رکھا‘‘ کے الفاظ صحیح بخاری میں ضرور موجود ہیں۔ دیکھیے: صحیح بخاری، کتاب الصوم، باب صوم داود علیہ السلام، حدیث: 1878
اور اس میں شک نہیں کہ کسی مکروہ عبادت کو عمل میں لانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی ہے، لہذا ایسی نذر کا پورا کرنا کسی طرح صحیح نہیں ہے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اگر کوئی ایسی نذر مان لے جو مکروہ اور ناجائز قسم کی عبادت ہو مثلا ہر رات کا کامل قیام، یا ہر ہر دن کا مسلسل روزہ وغیرہ تو ایسی نذر کا پورا کرنا درست نہیں ہے۔
لہذا اس عورت کو اسے اپنی قسم کا کفارہ دینا چاہئے یعنی دس مسکینوں کو کھانا کھلائے، ہر مسکین کے لیے آدھا صاع (سوا کلو یا ڈیڑھ کلو) کھجور وغیرہ ہونی چاہئے، یعنی طعام ایسا ہو جو علاقے کی اکثریت استعمال کرتی ہو۔ اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو تین دن مسلسل روزے رکھے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب