سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(281) باپردہ عورت کا مسجد میں نماز ادا کرنا

  • 17888
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-17
  • مشاہدات : 654

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا کسی نوجوان باپردہ خاتون کے لیے، جو شرعی لباس کی بھی پابند ہو اور چہرے اور ہاتھوں کے علاوہ اپنا سارا جسم ڈھانپتی ہو، اس بات کی اجازت ہے کہ اپنی سب نمازیں مسجد میں جا کر ادا کرے، اور کیا ضروری ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے شوہر کے ساتھ ہی جایا کرے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عورت کے لیے اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے کہ وہ مسجد میں جا کر نماز پڑھے بشرطیکہ شرعی تقاضوں کے مطابق پردہ کرتی ہو، اپنے چہرے اور ہاتھوں کو بھی ڈھانپتی ہو، خوشبو نہ لگائے اور زینت کا اظہار نہ کرے۔کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے’’اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں سے مت روکو۔‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الجمعة، باب ھل علی من لم یشھد الجمعة غسل، حدیث: 900۔ صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ، باب خروج النساء الی المساجد، حدیث: 442۔ سنن ابی داؤد، کتاب الصلاۃ، باب ما جاء فی خروج النساء الی المساجد، حدیث: 567، مسند احمد بن حنبل: 76،77/2) تاہم خاتون کے لیے اس کا گھر سب سے بہتر ہے۔ کیونکہ اس حدیث کے آخر میں یہ ارشاد موجود ہے: بيوتهن خير لهن (اور ان کے لیے ان کے گھر ہی بہتر ہیں)[1]


[1] گھر سے باہر قریب کی مسافت تک کے لیے جیسے کہ مسجد ہے یا عزیزوں ہمسایوں کے گھر ہوتے ہیں، اگر راستہ پُر امن ہو تو کسی محرم کو ساتھ لے جانا واجب نہیں ہے، تاہم احتیاط اور ادب کے پہلو سے اگر کوئی محرم ساتھ ہو تو بہت بہتر ہے۔ جیسے کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اہلیہ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کو ان کے گھر چھوڑنے کے لیے گئے تھے، جبکہ آپ مسجد میں اعتکاف کیے ہوئے تھے (س ع)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل، خواتین کا انسائیکلوپیڈیا

صفحہ نمبر 248

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ