السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک عورت رات کو نماز پڑھتی ہے اور یہ اس کا معمول ہے، مگر بعض اوقات وہ قیام کرنے سے قاصر ہوتی ہے، اور اسے کہا گیا ہے کہ بیٹھنے والے کا اجر قیام کرنے والے کے مقابلے میں نصف (آدھا) ہوتا ہے، تو کیا یہ بات صحیح ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہاں یہ صحیح ہے، نبی علیہ السلام سے ثابت ہے آپ نے فرمایا ہے کہ:
صَلَاةَ الْقَاعِدِ عَلَى النِّصْفِ مِنْ صَلَاةِ الْقَائِمِ (سنن النسائی، کتاب قیام اللیل و تطوع النھار، باب فضل صلاۃ القائم علی صلاۃ القاعد، حدیث: 1659۔ سنن ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا، باب صلاۃ القاعد علی النصف من صلاۃ القائم، حدیث: 1230۔ مسند احمد بن حنبل 192/2، حدیث: 6808)
’’بیٹھ کر پڑھنے والے کی نماز کھڑے ہو کر پڑھنے والے کے مقابلے میں آدھی ہوتی ہے۔‘‘
لیکن اگر اس کی عادت کھڑے ہو کر پڑھنے کی ہو اور پھر وہ عاجزی اور معذوری کے باعث بیٹھ کر پڑھے تو اللہ تعالیٰ اسے کھڑے ہو کر پڑھنے کا ہی ثواب عنایت فرمائے گا۔ کیونکہ آپ علیہ السلام کا فرمان ہے کہ
اذا مرض العبد او سافر كتب له من العمل ما كان يعمله وهو صحيح مقيم ("كتب له من العمل" کے بجائے ’’روایت کے الفاظ"كتب له مثل" "كتب له من الاجر مثل‘‘ کے الفاظ ملے ہیں۔ شاید کہ شیخ صاحب نے روایت بالمعنی بیان کی ہے۔ )
’’جب بندہ بیمار ہو جاتا ہے یا سفر میں ہوتا ہے تو اس کے لیے وہی عمل لکھے جاتے ہیں جو وہ اپنی صحت اور اقامت کے دنوں میں کیا کرتا تھا۔‘‘
تو اگر کوئی بندہ اپنی بیماری کے باعث ساری نماز ہی بیٹھ کر پڑھے تو اللہ تعالیٰ اسے کامل اجر عنایت فرمائے گا۔ اس وجہ سے کہ اس کی نیت کھڑے ہو کر ہی پڑھنے کی ہے اور جس قدر اس کی ہمت ہے اس پر وہ عمل کر رہا ہے تو جب وہ اس سے عاجز ہے (تو اجر سے ان شاءاللہ محروم نہیں ہے)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب