السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اگر کسی کو ٹھنڈے پانی سے ڈر لگتا ہو تو کیا اسے تیمم کر لینا جائز ہے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ایسے آدمی کو تیمم کر لینا جائز نہیں ہے۔ بلکہ اس پر واجب ہے کہ برداشت سے کام لے، صبر کرے اور وضو کے لیے گرم پانی استعمال کرے۔ ہاں اگر اسے اندیشہ ہو کہ ٹھنڈے پانی کے استعمال سے کوئی تکلیف ہو جائے گی[1] اور پانی گرم کرنے کا اس کے پاس کوئی انتظام نہ ہو تو تیمم کر لینے میں کوئی حرج نہیں۔ اور جب اس تیمم سے نماز پڑھ لی ہو تو پھر اس کے اعادے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ اس نے ارشاد الٰہی کے مطابق نماز پڑھی ہے۔ اور ہر وہ شخص جو حسب الحکم عبادت سے فارغ ہو چکا ہو تو اس پر اس کا اعادہ نہیں آتا۔
اور ٹھنڈے پانی سے محض اذیت محسوس کرنا ۔۔ عام حالات میں ۔۔ ناقابل قبول عذر ہے۔ اور بالخصوص ایسے ملکوں میں جہاں موسم بالعموم سرد ہی رہتا ہے، وہاں پانی ہوتا ہی ٹھنڈا ہے اور ٹھنڈے پانی سے آدمی کو کچھ نہ کچھ اذیت تو ہوتی ہے، مگر اس سے کسی تکلیف اور بیماری کا اندیشہ نہیں ہوتا۔ ہاں اگر کسی کو بیمار ہو جانے کا ڈر ہو تو اس کے لیے تیمم کر لینے میں کوئی حرج نہیں ہے، بشرطیکہ اس کے پاس پانی گرم کرنے کا کوئی ذریعہ یا انتظام نہ ہو۔ لہذا وہ اس تیمم سے نماز پڑھے اور بعد میں اس پر کوئی اعادہ نہیں ہے، اور اسے یہ بھی جائز نہیں کہ انتظار کرتا رہے حتیٰ کہ سورج نکل آئے پھر پانی گرم کرے۔ حالانکہ واجب یہ ہے کہ نماز اپنے وقت پر پڑھے، اور اسی انداز میں ادا کرے جیسے کہ اسے حکم ہے۔ یعنی اگر بغیر کسی اندیشہ یا بیماری کے وہ پانی استعمال کر سکتا ہو تو پانی استعمال کرے ورنہ تیمم کر لے۔ لیکن نماز میں تاخیر کر دینا، اس قدر کہ اس کا وقت ہی نکل جائے تو یہ جائز نہیں ہے۔
[1] یا بیماری بڑھ جانے کا اندیشہ ہو۔ (مترجم)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب