السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
طہر کے ایام میں بعض اوقات کچھ عورتوں کو سفید پانی سا آنے لگتا ہے، کیا اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مرد یا عورت کے سبیلین (قبل و دبر) سے کسی بھی قسم کی کوئی رطوبت خارج ہو تو اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، کیونکہ اللہ کا فرمان ہے:
﴿وَإِن كُنتُم مَرضىٰ أَو عَلىٰ سَفَرٍ أَو جاءَ أَحَدٌ مِنكُم مِنَ الغائِطِ أَو لـٰمَستُمُ النِّساءَ فَلَم تَجِدوا ماءً فَتَيَمَّموا صَعيدًا طَيِّبًا فَامسَحوا بِوُجوهِكُم وَأَيديكُم مِنهُ ...﴿٦﴾... سورة المائدة
’’اور اگر تم بیمار ہو، یا سفر میں، یا کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو، یا تم نے عورتوں سے مساس کیا ہو، اور پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے اپنے چہرے اور ہاتھوں کا مسح کر لیا کرو۔‘‘
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’تم میں سے جب کوئی بے وضو ہو جائے تو اس کی نماز قبول نہیں ہوتی حتیٰ کہ وضو کر لے۔‘‘( صحیح بخاری، کتاب الوضوء، باب لا تقبل صلاۃ بغیر طھور، حدیث: 135 و صحیح مسلم، کتاب الطھارۃ، باب وجوب الطھارۃ للصلاۃ، حدیث: 225۔) اور یہ حدیث صحیح اور متفق علیہ ہے۔ حدث کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جو قبل و دبر سے خارج ہو پیشاب پاخانہ وغیرہ، ان کے علاوہ ریاح پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے مگر ریاح سے صرف وجو لازم آتا ہے۔ اور پیشاب پاخانے وغیرہ کی صورت میں وضو سے پہلے استنجا بھی کرنا پڑتا ہے۔ اور وضو میں چہرہ، دونوں بازو، سراور کان کا مسح اور دونوں پاؤں کا دھونا واجب ہے، جو قرآن کریم اور سنت مطہرہ کے ظاہر سے ثابت ہے۔
اور خروج ریح کے علاوہ اونٹ کا گوشت کھانا، نیند آ جانا جس سے بے ہوشی ہو جائے اور ہاتھ سے شرمگاہ کو چھونے سے بھی وضو واجب ہوتا ہے مگر استنجا کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اور شرمگاہ کو چھونے میں آدمی خواہ اپنی شرمگاہ کو ہاتھ لگائے یا دوسرے کی شرمگاہ کو مثلا بیوی یا بچہ بچی وغیرہ (تو اس سے وضو کرے۔) [1]اور اللہ توفیق دینے والا ہے۔
[1] یہ فتویٰ احتیاط اور افضیلت کے طور پر ہے۔ جبکہ کچھ علماء بچے بچی کو استنجا کرانے کی صورت میں وضو ضروری نہیں کہتے، جیسے کہ پیچھے گزرا ہے۔ (مترجم)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب