السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا آخرت میں اللہ تعالیٰ کا دیکھا جانا ثابت ہے، اور اس کی کیا دلیل ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آخرت میں اللہ عزوجل کا دیکھا جانا اہل السنہ والجماعہ کے نزدیک حق اور ثابت ہے، اور اس کا انکار کفر ہے۔ اہل ایمان اپنے اللہ کو قیامت کے دن اور جنت میں بھی دیکھیں گے، جس طرح اللہ چاہے گا اور اس پر اہل السنہ کا اجماع ہے۔ سورہ قیامہ میں فرمایا گیا:
﴿وُجوهٌ يَومَئِذٍ ناضِرَةٌ ﴿٢٢﴾ إِلىٰ رَبِّها ناظِرَةٌ ﴿٢٣﴾... سورةالقيامة
’’اور بہت سے چہرے اس دن تروتازہ اور بارونق ہوں گے، اپنے رب کی طرف دیکھتے ہوں گے۔‘‘
دوسری جگہ فرمایا:
﴿لِلَّذينَ أَحسَنُوا الحُسنىٰ وَزِيادَةٌ...﴿٢٦﴾... سورة يونس
’’جن لوگوں نے نیکی کی ہے ان کے لیے خوبی ہے اور مزید بھی۔‘‘
یہاں ’’ زِيَادَةٌ ‘‘ سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی تفسیر کے مطابق ’’اللہ عزوجل کے چہرہ انور کو دیکھنا ہے۔‘‘ (سنن ترمذى، كتاب صفة الجنة، باب رؤية الرب تبارك و تعالى، حديث: 2552۔ صحيح ابن حبان: 471/16، مسند احمد بن حنبل: 332/4۔)
اور احادیث میں بوضاحت آیا ہے کہ اہل ایمان قیامت کے دن اور جنت میں بھی اپنے رب کو دیکھیں گے۔( صحيح بخارى، كتاب الرقاق، باب الصراط جسر جهنم، حديث 6204 صحيح مسلم، كتاب الايمان، باب معرفة طريق الرؤية، حديث 188۔) مگر دنیا میں اسے دیکھا جانا ناممکن ہے، جیسے کہ فرمایا:
﴿لا تُدرِكُهُ الأَبصـٰرُ وَهُوَ يُدرِكُ الأَبصـٰرَ ...﴿١٠٣﴾... سورة الانعام
’’نہیں پا سکتیں اس کو آنکھیں اور وہ پا لیتا ہے آنکھوں کو۔‘‘
سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے سوال رؤیت پر انہیں جواب دیا گیا تھا کہ لَن تَرَانِي (الاعراف: 7/143) ’’تو مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتا۔‘‘ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک فرمان میں یوں بھی ہے: واعلموا أنه لن يرى أحدٌ منكم ربه حتى يموت "( سنن ترمذى، كتال الفتن، باب علامة الدجال، حديث 2235 مسند احمد بن حنبل: 5/433 (واعلموا کے بجائے تعلمون ہے))یقین رکھو کہ کوئی شخص مرنے سے پہلے اپنے رب کو نہیں دیکھ سکتا۔" کیونکہ اللہ عزوجل کو ان آنکھوں سے دیکھنا اہل جنت کے لیے سب سے بڑھ کر انعام اور نعمت ہو گی، اور یہ دنیا نعمتوں کا گھر نہیں ہے، یہ تو پریشانیوں اور دکھوں کا گھر ہے۔ الغرض! اللہ عزوجل کو اس دنیا میں نہیں دیکھا جا سکتا، بلکہ آخرت میں دیکھا جائے گا اور صرف اہل ایمان ہی اس نعمت و انعام سے سرفراز ہوں گے اور کفار اس سے حجاب میں ہوں گے۔جیسے کہ فرمایا:
﴿كَلّا إِنَّهُم عَن رَبِّهِم يَومَئِذٍ لَمَحجوبونَ ﴿١٥﴾... سورة المطففين
’’خبردار! یہ لوگ اس دن اپنے رب سے حجاب میں ہوں گے۔‘‘ (یعنی دیدارِ الٰہی سے محروم رکھے جائیں گے)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب