سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(260) چچیرے بھائی کا حصہ؟

  • 17586
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-03
  • مشاہدات : 728

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زید و بکر چچیرے بھائی ہیں،ان کے پاس آبائی آراضی ہے،سابقہ دستور کے تحت زمین صرف بڑی اولاد کے نام منتقل ہوتی تھی۔چنانچہ زمین زید کے نام منتقل ہوئی البتہ عملا دونوں فریقین میں نصفا نصف بٹوارہ تقریبا آج سے 45 سال پیشتر ہوگیا۔30 سال بعد بکر نے کاغذی بٹوارہ کرنے کے لیے عدالت کی طرف رجوع کیا۔عدالتی منازل کی بادیہ پیمائی اور اعزہ و اقارب کے سمجھانے بجھانے پر فریقین کے درمیان عدالت میں نصفا نصف پر صلح ہوگئی اور فریقین کے نام الگ الگ کھاتے قائم ہوگئے۔

امسال چکبندی شروع ہوئی تو قبضہ کی بنیاد پر نئی معمولی آراضی بکر کو مل گئی جس میں زید کی کوئی شرکت نہیں ہے،اس طرح بکر کا کچھ حصہ مقابلتاًزیادہ ہوگیا،اب زید اس میں حصہ طلب کرتا ہے اور بکر انکار کرتا  ہے۔

درج بالا مسئلہ میں قرآن و حدیث کی روشنی میں کیا  زید واقعی پانے کا مستحق ہے ؟بینوا اتوجروا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر واقعہ کی صورت وہی ہے جو سوال میں ظاہر کی گئی ہے تو چکبندی کے موقع پر کسی قانونی گنجائش کی بنا پر بکر کو جو نئی اراضی مل گئی ہےوہ کل کی کل صرف بکر کی ملکیت ہے ۔زید کا اس میں حصہ طلب کر نا درست نہیں ہےاور بکر کا انکار کرنا درست اور ٹھیک ہے۔جیسے اس کے برعکس صورت میں یعنی چکبندی کے وقت زید کو کچھ نئی زمین مل جاتی تو وہ صرف زید کی ملک ہوتی ،اور اس میں بکر کا کوئی حق نہ ہوتا،اسی طرح صورت مذکورہ فی السوال میں بکر کے حاصل شدہ زمین میں زید کا بھی کوئی حق نہیں ہے۔البتہ اگر عملی اور کاغذی بٹوارہ سے پہلے چکبندی ہوئی ہوتی اور اس وقت کسی بنا پر کچھ نئی زمین مل جاتی تو دونوں(زید اور بکر )اس نئی اراضی میں برابر کے شریک ہوتے۔دوسرے کا کوئی حق نہیں ہوگا۔اس بارے میں لحاظ صرف موجودہ حالت اور وقت کا ہوگا۔حذا ماعندی واللہ اعلم۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب الفرائض والہبۃ

صفحہ نمبر 478

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ