سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(255) ورثاء میں بیوی اور دو لڑکیاں ایک بھائی ہو تو؟

  • 17581
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-04
  • مشاہدات : 729

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علماء دین متین اس مسئلہ میں کہ زید اپنی زوجہ اور دو لڑکیاں ایک حقیقی بھائی اور ایک بہن چھوڑ کر انتقال کیا۔زید کے ذمہ عورت کا دین مہر واجب الاداء ہے و نیز زید اپنی حین حیوۃ میں اپنی عورت کا ایک زیور اپنے بھائی کو دے دیا تھا ،وہ زیور عورت کو واپس نہ دیا اور زید کی شادی کے وقت اپنی عورت کو زیور بنانے کے لیے ساس کے گھر کی طرف سے دو سو روپیہ دیئے تھے اس دو سو روپیہ سے بھی زیور نہ بنایا۔پس اس صورت میں زید کے مال متروکہ میں سےکس طرھ تقسیم کیا جائے ،اور مذکورالصورۃ زیور اور روپئے کے لیے شریعت کا کیا حکم ہے۔بینواتوجروا فقط


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر زید نے اپنی بیوی کا مملوکہ زیور اپنی ذمہ داری پر اپنے بھائی کو دیا تھا،

تو یہ زیور زید کے ذمہ قرض ہے۔اور وہ اپنی بیوی کا مقروض مرا ،اور شادی کے وقت اس کی ساس نے جو دو سو روپے اس کی اپنی بیٹی (زید کی منکوحہ)

کے لیے زیور بنوانے کے واسطے دی تھی وہ اس کی ساس ہی کی ملکیت ہیں۔

(ذهب الجمهور الى ان الهدية لاتنتقل الى المهدى اليه الابان يقبضها هو وكيلة(فتح البارى) اور جب زید نے ان روپوں کے زیور بیوی کے لیے نہیں بنوائے بلکہ یہ روپے خود رکھ لیے، تو یہ روپئے بھی اس کے ذمہ قرض ہوئے جن کا ضمان اس کے ذمہ لازم ہے،اس صورت مسئولہ میں اس کے کل متروکہ مال سے پہلے بیوی کا دین مہر اور زیور مذکور کی قیمت اس کی بیوی کو ،اور مذکورہ دو سو روپئے اس کی ساس کو دیئے جائیں گے۔اس کے بعداس کا بقیہ ترکہ بہتر سہام پر تقسیم ہوکر ازاآنجملہ توسہام بیوی کو ،اور چوبیس چوبیس سہام اس کی ہر ایک لڑکی کو ،اوردس سہام اس کے بھائی کو ،اور پانچ سہام اس کی بہن کو ملیں گے۔

صورۃ المسئلہ ھکذا

زید                   مسئلہ:24  تصحیح 72

زوجہ          بنت            بنت                              اخ حقیقی                   اخت حقیقی

15/5...5/5... 24/8...24/8...9/3

نقشہ کے لیے کتاب کا مطالعہ کریں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب الفرائض والہبۃ

صفحہ نمبر 467

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ