السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
عیدالاضحیٰ کےموقعہ پرایک گاؤمیش جس کےدونوںسینگ کااوپر حصہ یعنی:جواوپر حصہ باریک ہوتاہےکاٹا ہواتھا یعنی :موٹا حصہ باقی رہ گیا جودورسے دیکھنےوالے کویہ نظر آتا تھاکہ اس بھینس کےدونوں سینگ گتتےہوئےہیں کاٹی ہوئی جگہ کی چوٹیوں پر دوتین انگل اگررکھے جاویں توچوٹیوں کی اتنی فراخی یعنی عرض ہے۔عید قرباں کاےروز خطیب نےخطبہ پڑھا اورکہاکہ جناب رسول اللہﷺ نےفرمایا کہ جس جانور کےسینگ ٹوٹے ہوئے ہوں اس کی قربانی سےمنع فرمایا ہےاس لئےیہ گاؤمیشن قربانی کے لائق نہیں ہے ۔جنہوں نےگاؤ میشن خریدی تھی انہوں نےکہ کہ یہ کٹےہوئے ہیں ٹوٹے ہوئےنہیں ہیں۔گاؤمیش کااصل مالک جس سے گاؤ میش خریدی تھی ان خریداروں کےکہنے لگا کہ یہ گامیش تم مجھے وابس دےدو اوررقم لے لو اورکئی قربانی کاجانور خرید لو۔
1۔اس پرایک مولوی صاحب نےجوکہ سند یافتہ ہیں فرمایا کہ یہ ضرورت کےلئےسینگ کاٹے گئےہیں یہ قربانی کےلئے جائز ہے۔
2۔جورویوڑ والے اپنی پہچان کےلئے تھوڑا ساکان نشانی کرنےکےلئے کہ اس جانور کی پہچان ہوسکےکہ یہ میرے ریوڑکا ہےکاٹ لیتے ہیں وہ بھی جائز ہےبنابریں گاؤمیش کوانہوں نے قربانی کرڈالی ہے۔ملتمس ہوں کہ گاؤمیش قربانی کےلئے جائز تھی یانہیں؟جن لوگوں نےقربانی کرڈالی ہے ان کوکوئی سزا یانہیں ؟
3۔اگر نشانی کے لئےتھوڑا ساکان چیر اجائے یاکاٹا جائےتووہ جانور قربانی کےلئے جائز ہے یا نہیں؟۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
امام ابو حنیفہ امام احمد امام شافعی امام مالک کےنزدیک اس گاؤمیش کی قربانی جائز تھی اس لئے اس کی قربانی درست ہوگئی کیوں کہ اس کی سینگ آدھی سےزیادہ موجود تھی۔نیز امام مالک کےنزدیک اس وقت ناجائز ہےجب ٹوٹے سینگ سےخون ہوورنہ سینگ ٹوٹے جانور کی قربانی ان کےنزدیک مطلقا جائز ہے۔
لیکن میرےنزدیک صورت مسؤلہ میں تفصیل کی ضرورت ہے۔آنحضرتﷺ نےاعضب القرآن جانور کی قربانی سےمنع فرمایا(ابو داود ترمذی عن علی) اب دیکھنا یہ ہےکہ عربی زبان میں اعضب القرن کس جانور کوکہتے ہیں؟
سوواضح ہوکہ لغت میں عضب کےمعنی قطع کاٹنا اورشق چیرننا پھاڑناشگاف کرنا کےہیں عضبۃ قطعن الناقۃ واعضبا شق اذنہا قاموس وغیرہ معلوم ہواکہ جس کاسینگ قصدا کسی مقصد سےکاٹی گئی ہوں پس جولوگ خود سینگ ٹوٹے یاقصدا ضرورت سےٹوڑے اورکاٹے ہوئےمیں فرق کرتے ہیں ان کاقول صحیح نہیں ہے اورنیز آں حضرت ﷺ نےفرمایا کہ قربانی کاجانور خرید تے وقت کان آنکھ خوب غورسےدیکھ لوکان کٹے یاکان پھٹے یاچیرے کی قربانی منع فرمایا اوریہ تصریح نہیں کی کہ ضرورت سےکان کاٹا یاچیرا گیاہوتو اس کی قربانی جائز ہےاوربلاضرورت کاٹا گیا ہوتوناجائزغرض یہ کہ آپ ﷺ نے مطلقا منع فرمایا ہےپس فرق کرنا صحیح نہیں ہوگا۔
دوسری بات:یہ دیکھنی ہےکہ کس قدرسینگ ٹوٹی ہوتو قربانی ناجائزہوگی؟سومعلوم ہوکہ آنحضرت ﷺنےکوئی مقدار نہیں بیان فرمائی اورلغت میں بھی کوئی مقدار نہیں لکھی ہے۔اس لئے ہروہ جانور جس کی سینگ کاٹ دی گئی ہو یاٹوٹ گئی ہواس کی قربانی درست نہیں ہوگی خواہ آدھی کٹی ہویاتہائی یاچوتھی یازیادہ اگر اس قدر برائےنام خفیف س کٹی ہوئی ہےکہ دیکھنے والے اس کودیکھ کر سینگ کٹایا سینگ ٹوٹا کہنے میں تامل کریں اورٹوٹے کاپتہ نہ چلے تو اس کی قربانی اس کی جائز ہوگی۔
تیسری بات:یہ دیکھنی ہےکہ سینگ دہری ہوتی ہےایک خول جوبہت سخت اورمضبوط ہوتی ہے۔دوسری اس کےنیچے اندر جوکمزور اورقدرے نسبہ نرم ہوتی ہے توحدیث میں کسی کاٹوٹنامراد ہے؟حدیث میں صرف اعضب القرن کالفظ استعمال کیاگیا ہےجوعربی لفظ ہے اورعربی لغت میں اعضب یا عضبا اس جانور کوکہتے ہیں جس کااندر سینگ ٹوٹا ہوا یا توڑا گیا ہو۔چنانچہ افائق فی غریب الحدیث2/444میں ہے:العضب فی القرآن الداخل لاانکسار قال الاخطل:
ان السيوف غدوهاورواحها
تركت هوازن مثل قرن الاعضب
ويقال لانكسار فى الخارج القصم الخ اور المغرت 1/244میں هى مكسوره القرن الداخل اورمشقوقة الاذن ومنه حديث نهى ان يضحى بالاعضب القرن والاذن اورصحاح مين هى العضباء الشاة المكسورة القرن الداخل وهو المشاش ويقال وهى التى انكسر احدقرينها وكبش اعضب بين العضب انتهى اورتاج الغات244مين هى كه شاة عضباءوكبش اعضب گو مسفند ے کہ شاخ داخلس شکستہ باشدیا آنکہ یکے ازردو شاخش باشد انتہی۔
پس صورت مسؤلہ میں اگربھینس کی اندورنی سینگ بالکل صحیح سالم پوری کی پوری موجود تھی اورصرف خول کاکچھ حصہ کاٹ دیاگیاتھا توقربانی جائز ہوگی۔
مکتوب
٭غیر مسلموں کوقربانی کاگوشت دینے کےبارے میں مسؤلہ روایت مجھ کونہیں ملی ممکن ہےکہ فتح القدیر لابن الہمام یامصنف عبدالرزاق یا ابن شیبہ میں ہو۔ویسے مسئلہ صحیح یہی ہےکہ غیر مسلم کوقرباین کاگوشت دینا بلاکراہت جائز ہےامام احمد اورحنیفہ ابن حزم وغیرہ بلاکراہت جائز کہتے ہیں لعموم قوله صلى الله عليه وسلم:كلواواطعمواوادخروا امام مالک بھی جائز کہتے ہیں لیکن مع الکراہت۔
مکتوب
٭(1)میری نظر میں قرآن وحدیث کی کوئی ایسی نص صریح نہیں ہے جس سےیہ ثابت ہوتا کہ منی یاحرم میں قربانی کرانے کاثواب اپنےوطن میں قربانی کرنےسے زیادہ ہے اورنہ سلف ہی کسی سے صراحۃ یہ منقول ہےکہ انہوں نےدوسروں کی طرف سےمنی میں مزید ثواب کی نیت سے قربانی کی ہو یا سا کافتوی دیا ہو۔
جولوگ مزید ثواب ملنےکی نیت سےمنی یاحرم ین قربانی کرنےکے لیے وہاں پیسے بھجواتے ہیں ان کے اس فعل کی بنیادصرف یہ خیال ہےکہ حرم میں ہرنیکی کاثواب غیرحرم سےزیادہ ہےجیسے حرم میں ہر برائی کاگناہ غیر حم کی برائی سےبڑھ کرہے اورسا خیال کی کی بنیاد جوچیزیں ہیں:
(1)نمازاور روزہ پرقیاس
(2)عبداللہ حسن اورحسن بصری کاقول ۔
نماز کےاجر کی تضعیف کےبارےمیں متعدد صحیح اورصریح حدیثیں موجود ہیں لیکن روزے کےبارے میں صرف ایک حدیث مروی ہے اورسخت ضعیف ہے۔حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ الْعَدَنِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ زَيْدٍ الْعَمِّيُّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ «قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ أَدْرَكَ رَمَضَانَ بِمَكَّةَ فَصَامَ وَقَامَ مِنْهُ مَا تَيَسَّرَ لَهُ كَتَبَ اللَّهُ لَهُ مِائَةَ أَلْفِ شَهْرِ رَمَضَانَ فِيمَا سِوَاهَا وَكَتَبَ اللَّهُ لَهُ بِكُلِّ يَوْمٍ عِتْقَ رَقَبَةٍ وَكُلِّ لَيْلَةٍ عِتْقَ رَقَبَةٍ وَكُلِّ يَوْمٍ حُمْلَانَ فَرَسٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَفِي كُلِّ يَوْمٍ حَسَنَةً وَفِي كُلِّ لَيْلَةٍ حَسَنَةً»(ابن ماجه مع السندى1/269)
اس حديث كوابو الوليد الازرقى نے أخبار مكة وماجاء فيها من الاثارمیں اورابوحفص عمربن عبدالمجید المیانشی نے المجالس المكيةمیں بھی روایت کیا ہے اس کی سند میں عبدالرحیم بن زید العمی عن ابیہ واقع ہیں اوریہ باپ بیٹا دونوں ہی سخت ضعیف ہیں۔عبدالرحیم کی ابن معین نےتکذیب کی ہےاوران کےباپ زید العمی کی بھی سب نےتضعیف کی ہے
ابو الطیب الفاسی المالکی لکھتے ہیں: وجاء أحاديث تدل على تفضيل ثواب الصوم وغيره من القربات بمكة على ثواب ذلك في غيرها، إلا أنها في الثبوت ليست كأحاديث فضل مكة والصلاة فيها، وحديث تفضيل الصوم بمكة على غيرها. رويناه في مسند ابن ماجة3، وفي تاريخ الأزرقي، وفي "المجالس المكية" للميانشي4، من حديث ابن عباس رضي الله عنهما وعنه(شفاء الغرم باخبار البلد الحرام1/82)
اورعبداللہ بن بن عباس کاقول اورفتوی سنن کبری بیہقی 4/331اورمستدرک حاکم1460/261میں مروی ہے ۔ان کےعلاوہ اس کوابوذر اورابو الولید الازرقی نےبھی روایت کیا ہے كما فى القرى القاصد ام القري ص19/20/209فاسی مالکی لکھتے ہیں أَخْبَرَنَاهُ أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، أنبأ أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ , أنبأ بِشْرُ بْنُ مُوسَى الْأَسَدِيُّ، ثنا فَرْوَةُ بْنُ أَبِي الْمَغْرَاءِ الْكِنْدِيُّ، ثنا عِيسَى بْنُ سَوَادَةَ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ زَاذَانَ، قَالَ: مَرِضَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ فَجَمَعَ إِلَيْهِ بَنِيهِ وَأَهْلَهُ فَقَالَ لَهُمْ: يَا بَنِيَّ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ حَجَّ مِنْ مَكَّةَ مَاشِيًا حَتَّى يَرْجِعَ إِلَيْهَا كُتِبَ لَهُ بِكُلِّ خُطْوَةٍ سَبْعُمِائَةِ حَسَنَةٍ مِنْ حَسَنَاتِ الْحَرَمِ " فَقَالَ بَعْضُهُمْ: وَمَا حَسَنَاتُ الْحَرَمِ؟ قَالَ: " كُلُّ حَسَنَةٍ بِمِائَةِ أَلْفِ حَسَنَةٍ " تَفَرَّدَ بِهِ عِيسَى بْنُ سَوَادَةَ هَذَا , وَهُوَ مَجْهُوَلٌ انتهى قلت(قائله الفاسى المالكى) قلت: لم ينفرد به عيسى بن سوادة كما ذكر البيهقي، لأنا رويناه في الأربعين المختارة لخطيب مكة: الحافظ ابن مسدي، وغيرها من حديث سفيان بن عيينة، عن إسماعيل بن أبي خالد الذي رواه عنه ابن سوادة. وقال ابن مسدي: هذا حديث حسن غريب ورواه الحاكم1 من الوجه الذي رواه البيهقي وصحح إسناده(شفا الغرام1/82)حاکم کی تصحیح پر امام ذہبی نے اعتراض کردیا ہےچنانچہ فرماتے ہیں:قلت لیس بصحیح اخثی ان یکون کذبا وعیسی قال :ابوحاتم منکرا الحدیث انتہی اور جس بصری کاقول اس طرح مروی ہےصوم يوم بكمة بماة الف وصدقة درهم بماة الف وكل حسنة بماة الف اخرجه ابو الفرج فى مثير الغرام(القرى لقاصد ام القرى ص:608)وفيما تقدم من احاديث مضاعفة الصلوة والصوم دليل على اطراد التضعيف فى جميع الحسنا الحاقا بها يؤيد ذلك قول الحسن البصري المتقدم ولم يلقه الادلة مستند فى ذلك(القرى ص:609)
(2)حرم میں قربانی کرانےکےبعد گھر پر قربانی کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔
(3)مکہ کےغریبوں میں روپیہ تقسیم کرنے کو زیادہ ثواب کاباعث سمجھ کروہاں رقم بھیجنے ابھی معلوم ہوچکا ہےحدیث توخذ من اغنیاء ہم وترعلی فقراءہم خاص زکوۃ فرض کےبارے میں وارد ہے۔مدینہ کےفقراء میں روپیہ تقسیم کرنے کوزیادہ ثواب کاموجب سمجھنےکے بارے میں بھی قیاس ہی سےکام لیاگیا ہے۔چنانچہ المحب الطبری لکھتے ہیں عن ابن عمر قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم: "صيام شهر رمضان في المدينة كصيام ألف شهر فيما سواها"اخرجه الحافظ ابوالفرج فى مثير الغرام وهذا دليل على ان حسنات المدينة اجمع مضاعفة بالف كما ان حسنات مكة بماة الف(القرى ص:629) حضرت ابن عمر کی اس حدیث اور حسن بصری کےقول کی سند کیسی ہے؟یہ معلوم نہیں ہوسکا وقيل: عن ابن عباس قال المراد بالمسجد الحرام الحرم كله، قال المحب الطبري3: ويتأيد بقوله تعالى: {وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِي جَعَلْنَاهُ لِلنَّاسِ سَوَاءً الْعَاكِفُ فِيهِ وَالْبَاد} [الحج: 25] . أو قوله تعالى: {سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى} [الإسراء: 1] . وكان ذلك من بيت أم هانئ ... انتهى.
(2) أن للعلماء خلافا في المراد بالمسجد الحرام، فقيل: مسجد الجماعة الذي يحرم على الجنب الإقامة فيه، حكاه المحب الطبري، وذكر أنه يتأيد بقوله صلى الله عليه وسلم: "صلاة في مسجدي هذا أفضل من ألف صلاة فيما سواه إلا المسجد الحرام"، والإشارة بمسجده إلى مسجد الجماعة، فينبغي أن يكون المستثنى كذلك ... انتهى. القری ص 607:608)
وحدیث زاذان عن ابن عباس المتقدم يدل ان المراد بالمسجد االحرامورواه الحاكم1 من الوجه الذي رواه البيهقي وصحح إسناده، وقال المحب الطبري بعد أن أخرج هذا الحديث: وهذا الحديث يدل على أن المراد بالمسجد الحرام في فضل تضعيف الصلاة الحرم جميعه، لأنه عم التضعيف في جميع الحرم، وكذلك حديث تضعيف الصلاة عمن في جميع مكة، وحكم الحرم ومكة في ذلك سواء باتفاق، إلا أن يخص المسجد بتضعيف زائد على ذلك، فيقدر كل صلاة بمائة ألف صلاة فيما سواه والصلاة فيما سواه بعشر حسنات فتكون الصلاة فيه بألف ألف حسنة، والصلاة في مسجد النبي صلى الله عليه وسلم بمائة ألف حسنة، ويشهد لذلك ظاهر اللفظ2، والله أعلم.
قال: وعلى هذا تكون حسنة الحرم بمائة ألف حسنة وحسنة مسجده، إما مسجد الجماعة، وإما الكعبة على اختلاف القولين بألف ألف، ويقاس بعض الحسنات على بعض أو يكون ذلك خصيصا للصلاة، والله أعلم ... انته(القرى ص:609)
میرے نزیک موجودہ حالات میں گھر پر قربانی کرنا اوراپنے مقام میں صدقہ وخیرات کرنازیادہ بہتر ہے۔منی میں قربانی کاگوشت اکثر بلکہ تمام ترضائع ہوجاتاہےاورمکہ ومدینہ سےزیادہ غریب ومستحق پنے یہاں موجود ہیں۔حرمین میں اب غریب کون ہے؟وہاں دوردراز کےدیہاتوں میں بدوغریب ہوں گے لیکن ان تک کون حاجی پہنچ سکتا ہے مسجد حرام اورمسجد نبوی کےعلاوہ دوسری مساجد مکہ ومدینہ میں بجز مسجد قبا کےزیادہ ثواب ملنے پر کوئی صریح مرفوع روایت موجود نہیں ہےاس لیے دوسری مساجد میں اوردونےکی کوشش صحیح نہیں ہے۔واللہ اعلم
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب