سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(197) قربانی کی نیت سے پالے جانور کی جگہ دوسرا جانور قربانی کرنا

  • 17523
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-08
  • مشاہدات : 1077

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جس جانور کوقربانی کی نیت سےپالا ہےدوسال کےبعد بھی دودانت نہیں ہوا۔اوردوسرا جانور خرید نےکی وسعت نہین توکیا کرے؟جب کہ دوسال سےپالا ہو موجودبھی ہے۔قربانی کی نیت کیاہوا جانور جس کوپالا ہےاوروہ دوانت نہیں ہوا کیافروخت کیا جاسکتا ہے؟اگرفروخت کرناجائز ہے توکیا فروخت سےحاصل شدہ پوری رقم خریدناضروری ہے؟یاکم قیمت کابھی خرید کرقربانی کرسکتا ہے؟اگر ایسا کرسکتا ہےتوزائد رقم اپنے مصرف میں لاسکتا ہےے یانہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اونٹ جانور یک قربانی جائز نہیں ۔خواہ وہ دوسال کاہویا اس سےبھی زیادہ دن کااورخواہ وہ قربانی کی نیت سےگھر کاپالا ہواہو یاخرید ا ہوا ہو۔بہر حال اس کی قربانی  درست نہیں لقوله ﷺ لاتذبحو الامسنة مسلم

1۔اگر وسعت  ہوتو دوسرا دنتا ہواجانور خرید کر قربانی کرنی چاہیے اورایسی صورت میں کہ قربانی کی نیت سےگھر کاپالا ہواجانور جوایک سال سے زائد عمر کاہے قربانی کےدنوں میں اونٹ رہ جائےاوراس کےمالک کودوسرا دنتا ہوجانور خرید نے کی وسعت نہیں ہے اس کےذمہ قربانی ہی نہیں ۔کیوں کہ قربانی صرف مسنۃ کی درست ہےاوراس کو اس کی وسعت نہیں اوراونٹ جانور کاہونا اورنہ ہونا برابر ہے۔

اوراگر اس پلے ہوئےاونٹ جانور کےآیندہ بقر عید تک اورمسنہ ہونےتک نگہداشت اورپرورش مشکل ہو تودنتے ہوئےجانور سے اس کابدل لینا یا فروخت کردیناجائز ہےپھر حاصل شدہ پوری قیمت کادنا ہو اجانور خرید کر قربانی کرے یا اس سے کم کادونوں جائز ہےےلیکن فاضل رقم کوصدقہ کردینا چاہیے۔

(1)عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ حَكِيمَ بْنَ حِزَامٍ يَشْتَرِي لَهُ أُضْحِيَّةً بِدِينَارٍ، فَاشْتَرَى أُضْحِيَّةً، فَأُرْبِحَ فِيهَا دِينَارًا، فَاشْتَرَى أُخْرَى مَكَانَهَا، فَجَاءَ بِالأُضْحِيَّةِ وَالدِّينَارِ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: ضَحِّ بِالشَّاةِ، وَتَصَدَّقْ بِالدِّينَارِ.(ترمذی)

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي الرَّجُلِ يَشْتَرِي الْبَدَنَةَ أَوِ الْأُضْحِيَّةَ فَيَبِيعُهَا وَيَشْتَرِي أَسْمَنَ مِنْهَا. فَذَكَرَ رُخْصَةً.(مجمع الزوائد3/321)

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْأَوْسَطِ، وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ.

کسی جانور کے قربانی کی نیت سےپالنے یا سا نیت سےخریدنےسےقربانی کےلئے اس کےمتعین ولازم ہوجانےپراور اس کی بیع وتبدیل کےعدم جواز پرکوئی قرآنی نص نہیں ہےجولوگ عدم جواز کےقائل ہیں ان کی دلیل صرف قیاس علی الہدی ہےلیکن ہدی اوراضحیہ میں جوفرق ہےوہ مخفی نہیں پھر یہی مانعین خاص صورتوں میں تبدیل یابیع کے جواز کےبھی قائل ہیں کمایخفی۔

اگر کسی مخصوص جانور کی جومسنہ ہوقربانی کرنےکی نذر مان لی جائےتوہ قربانی کےلئے متعین ولازم ہوجائےگااوراس کی بیع یاتبدیلی درست نہیں ہوگی۔واللہ ماعندی واللہ اعلم)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔كتاب الأضاحى والذبائح

صفحہ نمبر 396

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ