سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(189) ذبیحہ کے متعلق حدیث کی تحقیق

  • 17515
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-09
  • مشاہدات : 763

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

وفدینه بذبح عظیم  من الجنة وهو الذی قربه هابیل جاء به جبرئیل ع﷤ فذبحه السید ابراهیم الخ اس سلسلہ میں ابن کثیر معالم التنزیل وغیرہ تفسیروں میں جوروایات ہیں وہ محدثین کےمعیار کےلحاظ سے کس پایہ کی ہیں  اوراسلام میں ان روایات کا کیامقام ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آیت مسؤل عنہا میں ذبح عظیم سے کبش مراد ہونے پر علمائے امت مفسرین محدثین فقہا متفق ہیں ۔رہ گئی اس کی تفصیلات کہ اس کوجبرئیل جنت سے لائے تھے اوریہ کہ وہ جنت میں عرصہ دارز(40سال) تک رہا تھاارویہ کہ وہ وہی کبش تھا جس کی ہابیل ابن آدم نےقربانی دی تھی وغیرہ ذلک سوایسا ہونانہ عقلا محال ہےاورخارج ازقدرت الہی ہے۔اس لئے ان تفصیلات کاانکار ضروری نہیں اورچون کہ یہ تفصیلات کسی مرفوع معتبر حدیث سے ثاتب نہیں ہیں بلکہ یہ صرف عبداللہ بن عباس کاقول ہےاوروہ بھی ادنی درجہ کی بعض کتب تفسیر(ابن حاتم عبدالرزاق ابن اسحاق) وغیرہ میں مروی ہے اس لئے ان پر ایمان لانابھی ضروری نہیں ہے واللہ اعلم

مکاتیب

٭ماہنامہ الحق حیدرآباد کا محولہ شمار جس  میں عیاض عقاد کامضمون کےعنوان قربانی اورقرآن حکیم سےہی یہ اندازہ ہوتاہےاوریہ اندازہ غلط نہیں ہے کہ مضمون نگار عیاض  عقاد کےنزدیک سنت یعنی: حدیث قرآن کی طرف دین اورحجت شرعی نہیں ہےاورمضمون میں ان لوگوں کی ترجمانی کی گئی ہے۔ جوحج اور عید الاضحیٰ کےموقع پر قربانی کرنے کوفضول کام اور مال کے ضیاع کاذریعہ سمجھتے ہیں۔

ماہنامہ طلوع اسلام تقسیم ہند سےپہلے غلام محمد پرویز کی ادارت میں دلی سےشائع ہوتا تھا اوربٹوارہ کےبعد لاہور سے ۔

اورپرویز جو تقسیم سے پہلے سکریٹریٹ میں ملازم تھے اسلم جیرا جپوری استاد تاریخ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ساختہ وپرداختہ ہیں۔مضمون نگار نے اپنے قارئین کومرعوب کرنے کے لئے بے ضرورت تفسیر اوراحدیث اورفقہ اورشروح حدیث کی بہت ساری کتابوں کےنام اورحوالے لکھ دیئے ہیں۔قربانی کی نفس مشروعیت پر پوری امت کاتفاق ہے۔البتہ اس میں اختلاف ہے کہ قربانی کرناواجب ہے یامحض سنت موکدہ ؟ائمہ اربعہ میں امام شافعی اورجمہور علماء اس کےسنت موکدہ ہونے کےقائل ہیں ۔اورامام ابوحنیفہ اورامام مالک اس کےوجوب کےقائل ہیں اورامام احمد کہتے ہیں۔یکرہ ترکھا مع القدرۃوری عنہ انھا واجبہ کسی بھی صحابی سےاس کی کراہت ہرگز منقول نہیں ہے۔البتہ حضرت ابوبکر وعمر اور بعض دوسرے صحابہ سےیہ منقول ہے کہ انهم كانو لايضحون كراهة ان يظن من راهم انهاواجبة اس سے یہ ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ قربانی نہ کرنے والے یہ حضرات قربانی کرنے کےمکروہ سمجھتےتھےے اورمکروہ سمجھنے کی بنا پر قربانی نہیں کرتے تھے ۔

مرعاۃ ج2/349/350طبع لکھنو میں قائلین اور سنیت کے دلائل تفصیل کےساتھ مذکور ہین ۔اس مرعاۃ میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ والأصل في مشروعيتها الكتاب والسنة والإجماع. أما الكتاب فقوله تعالى: {فصل لربك وانحر} [الكوثر: 2] أي صل صلاة العيد وانحر النسك أي الأضحية، كما قاله جمع من المفسرين، وأما السنة فما روي في ذلك من أحاديث الباب، وهي متواترة من جهة المعنى؛ لأنها مشتركة في أمر واحد، وهو مشروعية الأضحية، وأما الإجماع فهو ظاهر لا خلاف في كونها من شرائع الدين، وقد تواتر عمل المسلمين بذلك من زمن النبي- صلى الله عليه وسلم - إلى يومنا هذا، وهي من سنة إبراهيم - عليه السلام - لقوله تعالى: {وفديناه بذبح عظيم} [الصافات: 107] ، واختلف هل هي سنة أو واجبة؟  الخ

امام شو کانی قربانی کےوجوب کے قائل ہیں چنانچہ السیل الجرار میں وجوب کےدلائل ذکر کرنے کےبعد لکھتے ہیں:

وبهذا تعرف ان الحق ماقاله الاقلون من كونها واجبه ولكن هذا الوجوب مقيد بالسعة فمن لاسعة له لااضحية عليه انتهى

ہمارے نزدیک وسعت رکھنے والے کے لئے قربانی کاترک کرناسخت مکروہ ہے کیوں کہ قربانی سنت مؤکدہ ہے واللہ اعلم

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب الأضاحی والذبائح

صفحہ نمبر 390

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ