السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اکثردکانوں میں روپیوں کےلئے مثلا:پانچ روپے خردہ کے لئے3پائی اوردس روپے 6پائی وغیر لوگوں سےوصول کرتے ہیں کیا اس طرح لینا اوردیناجائز ہے؟کیایہ سود میں داخل نہیں ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس طرح لینااوردینا جائز نہیں ہےیہ صورت سود میں داخل ہے۔کرنسی نوٹ خواہ پانچ کاہویادس کااگرچہ خلقہ ثمن نہیں ہے لیکن عرفا ثمن کےحکم میں ہے۔بلکہ بترویج حکومت وقت عین ثمن سمجھاجاتا ہے۔اہل تجارت نوٹ کوبمنزلہ روپیہ کےسمجھتے ہیں پس درحقیقت نوٹ کی بیع وشراہ ثمان کی خرید وفروخت کی طرح ہے۔بائع ومشتری کامقصود نوٹ کی بیع وشراء کاغذ کابیچنا خریدنا نہیں ہوتابلکہ روپیہ کی بیع مقصود ہوتی ہےکیوں کہ ظاہر ہے نوٹ کاکاغذ ایک پیشہ کابھی نہیں ہوتایہی وجہ ہےکہ اگر کوئی شخص کسی کادس روپیہ نوٹ ضائع کردے تواصل مالک بطور تاوان دس روپے لیتا ہےاورجب دس روپے کانوٹ فروخت کیاجاتاہےتواس سےکاغذ کاقیمت لینی مقصود نہیں ہوتی بلکہ دس روپے فروخت کرنا اوراس کی قیمت لینی مقصود ہوتی ہے۔دس روپے قرض لینے والے کواختیار ہوتاکہ بوقت اد دس کانوٹ روپے کانوٹ یادس روپے دے عرفاوحکما دونوں برابر سمجھے جاتے ہیں۔قرض خواہ مقروض سےنوٹ یادس روپے لینے میں عذر نہیں کرتا۔خلاصہ یہ کہ نوٹ عرفا عین ثمن خلقی ہیں اس لئے اس بیع شراء میں کمی پیشی قطعا ناجائز وحرام ہوگی۔پس صورت مسئولہ میں چوں کہ پانچ یادس روپے کانوٹ دے کرپانچ یادس روپے لینا درحقیقت پانچ روپے یادس روپے فروخت کرنااوراس کی قیمت لینا ہےیعنی :روپیہ کابیچنا روپیہ کےبدلہ میں ہے اس لئے پانچ روپے یادس کانوٹ اوراس کےساتھ ایک یادوپیسہ دے کر پانچ یادس روپے لینا شرعا ناجائز ہے۔بیع صرف میں ایک روپیہ یادوپیسہ کی زیادتی خالی عن العوض ہےاوربعینہ ربوا جوشرعا حرام ہے۔
اوریہ پیسے اگرچہ چاندی کی جنس سےنہیں ہیں اورنہ عرفا وخلقہ روپیہ کےحکم میں ہیں لیکن جب ان پیسوں کےمقابلہ میں چاندی کاکچھ حصہ رکھاجائے گا توظاہر ہےکہ نوٹ میں لکھی ہوئی رقم کی چاندی مقابل کےروپیہ کی چاندی سےزیادہ ہوگی اس طرح بیع صرف میں تفاضل ومتحقق ہوجائے گاجوشرعا ناجائزاورحرام ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب