سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(133) خاوند کے مرضِ جنون کی وجہ سے طلاق لینا

  • 17459
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-27
  • مشاہدات : 764

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیافرماتےہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ ہندہ کاشوہر عرصہ آٹھ برس سےمرض جنون میں مبتلا ہے۔کبھی کبھی دوایک روز ہوش میں آجاتاہےاور اس عرصہ میں علاج بھی بہت ہوامگر کچھ صورت افاقہ نہیں ہےبلکہ اورترقی پر ہےاور ہند بہت چاہتی ہےکہ کسی طور سے طلاق دیوے اس لئےاپنازیور دیتی ہےاورمہر بھی معاف کرتی ہےمگر وہ طلاق نہیں دیتا اور نہ کسی طور سےنان نفقہ کی خبر گیراں ہوتاہے اورہندہ اس وقت میں بعمر پچیس سالہ اوراپنےنان نفقہ سےبہت عاجز وپریشان ہے۔اورنہ کوئی صورت گزران ہےاورنیز خوف اس بات کاہے کہ ہندہ سےاس حالت پریشانی میں امورخلاف شرع صادر ہوجائیں اب ہندہ اپنی گلو خلاصی کےواسطے دوسرا نکاح کرناچاہتی ہے توشریعت میں جائز ہےیا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس صورت میں ہندہ کودوسرا نکاح کرلینےکی جواز کی یہ صورت  ہےکہ ہندہ حاکم شرع  کرےروبر اس بات  کی درخواست کرے کہ میرا شوہر اس قدر  مدت سےمرض جنون میں مبتلا ہے کبھی کبھی ہوش میں آجاتا ہےمین اوس سے طلاق چاہتی ہوں اوراسی لئے اپنا زیور دیتی ہوں اورمہربھی معاف  کرتی ہوں لیکن وہ نہ مجھے طلاق دیتا نہ کسی طور سے میرے نان نفقہ کی خبر لیتا ۔ اب میری گزارن کی کوئی صورت اوس کےنکاح میں رہ کرنہیں ہے۔لہذا درخواست کرتی ہوں کہ میرا نکاح فسخ کرادیا جائے کہ عدت کازمانہ کاٹ کرکسی ددسرے سے اپنانکاح کرلوں۔

حاکم مذکورہ ہندہ سےاس بات کاثبوت لے کرکہ اوس کاشوہر فی الواقع اوس کےنان ونفقہ کی خبر نہیں لیتا نکاح مذکورہ فسخ کرکےحکم دیدے کہ بعد انفضائے عدت کےدوسرے نکاح کرلے۔

مصر:ج: میں فتاوی قاری الھدایہ سےمنقول ہے:سئل عمن غاب زوجها ولم يترك لها نفقة فاجب اذاقامت بينه على ذلك وطلبت فسخ النكاح من قاض يراه ففسخ نفد

اور هدايه مطفائى میں ہے:قلت روى من حدث عبادة بن الصامت  وابن عباس وابى سعيد الخدرى وابى هريرة وابى لبابة وثعلبة بن مالك وجابر بن عبدالله وعائشه

اور كتاب ظفر اللاضى بمايجب فى القضاء على القاضى  ص 127قدأمرا الله سبحانه وتعالى باحسان عشره الزجات فقال: وعاشروهن بالمعروف ونهى عن امساكهن ضرار وامر بالامساك بالمعروف والتسريح بالاحسان فقال :فامساك بمعروف اوتسريح باحسان ونهى عن مضارتهن فقال عزوجل ولاتضاروهن فالغائب ان حصل مع زوجته التضررلغيبه جازلها ان ترفع امرها الى حكام الشريعه وعليهم ان يخلصو ها من هذا الضرار القانع هذا على تقدير ان الغائب ترك لها مايقوم بنفقها ونهالم يتضرومن هذه الحيئية كونها لامزوجه والاأيمه اما اذا كانت متضررة لعدم وجود ماتسنفقه مما تركه الغائب فانسخ لذلك على انفراد ه جائز ولوكان حاضرا فضلا عن ان يكون غائبا وهذه الايات التى ذكرناهاتدل على ذلك

اور اوسى صفحه میں ہے:اما اذالم يترك لها مايحتاج اليه فالمسارعة الى تخليصها وفك اسرها ودفع الضرار عنها واجبة

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب الطلاق

صفحہ نمبر 276

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ