سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(49) شبینہ شرعاً جائز ہے؟

  • 17375
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-05
  • مشاہدات : 930

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

شبینہ جس کی صورت یہ ہےکہ رمضان المبارک کی ستائیسویں شب کوپورا قرآن پاک نماز تراویح میں ایک حافظ یاتین یا چار شخص تقسیم کرکے صبح صادق سےقبل ختم کردیتے ہیں ازروئےشریعت جائز ہےیا نہیں؟ جواب قرآن وحدیث سےمرحمت فرمائیے بحوالہ کتب کےجواب ہوناچاہئیے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شبینہ کئی وجہ سےنادرست ناجائز ہے یہ طریقہ آں حضرت ﷺ سےثابت نہیں اور نہ صحابہ کرام سےنہ تابعین واتباع تابعین  سے نہ ائمہ اربعہ سےغرض یہ کہ اس طرح قرآن ختم کرناقرون ثلاثہ مشہور دلہا بالخیر سےثابت نہیں ہےاورآں حضرتﷺ اورصحابہ کرام کےطریقہ کےخلاف ہےاور جوعبادت حضرت ﷺ اورصحابہ کے طریقہ  پر نہ ہو وہ نادرست ہے۔قاضی ثناء اللہ پانی پتی ارشاد الطالبین میں لکھتے  ہیں:

 خواجہ عالی شان بہاء الدین نفشبندو وامثال شان حکم کردند کہ ہر عبادت کہ موافق سنت است عبارت معینہ تراست برائے ازالہ وزائل نفس وتصفیہ عناصر وصول قرب الہی لہذا بدعت حسنہ مثل بدعت قبیحہ  اجتناب می کندہ کہ رسول  فرمودہﷺ(فارسی)

پورا قرآن تین رات سے کم میں ختم کرناممنوع ہےآں حضرت ﷺ فرماتےہیں لايفقه من قرأالقرآن فى اقل من ثلاث(ابوداود وترمذي) هذا نص صريح فىلايختم القرآن فى اقل من ثلاث(عون المعبود4/268)وشاهده عند سعيد بن منصور بإسناد صحيح من وجه آخر عن ابن مسعود :اقراوالقرآن فى سبع ولاتفرقو فى اقل من ثلاث(فتح البارى9/95)آں حضرت ﷺ نےپورا قرآن مجید کبھی  تین رات سے کم بیش ختم نہیں کیا ہےوَلِأَبِي عُبَيْدٍ مِنْ طَرِيقِ الطَّيِّبِ بْنِ سَلْمَانَ عَنْ عَمْرَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ لَا يَخْتِمُ الْقُرْآنَ فِي أَقَلَّ مِنْ ثَلَاثٍ وَهَذَا اخْتِيَارُ أَحْمَدَ وَأَبِي عُبَيْدٍ وَإِسْحَاقَ بْنِ رَاهْوَيْهِ وَغَيْرِهِمْ(فتح الباری9/96)

(3)شبینہ کرنے والے بالعموم جیساکہ مشاہدہ  کیا گیا ہے یہ اہتمام بظاہر نام ونمود کے لئے کرتے ہیں۔ اورختم کرنے والے حفاظ بھی ظاہر اخلاص فی العبادات سےعاری وخالی ہوتے ہیں كمايظهر من حركاتهم وسكناتهم وكلماتهم ومسابقتهم به هذا ماعندى والله أعلم بسرائرهم وبواطنهم

(4)منتظمین شبینہ میں سے کم ایسے ہوتے ہیں جو اس عبادت میں شریک ہوں۔حافظ کے پیچھے  نماز میں صرف دو چار آدمی کھڑے ہوتےہیں اور یہ بھی آخر تک کئی بیٹھکیں کرتے ہیں۔ باقی سب حاضر ین تماشہ دیکھتے  رہتے ہیں اور اکثر ایسا ہوتا ہےکہ مسجد سےباہر اور اند ر بھی لوگ گپ شپ کرتے رہتے ہیں یاصف کےقریب سوجاتے ہیں اور مسجد میں ہوا چھوڑتے رہتے ہیں پس ایسی عبادت بجائے ثواب کےباعث عتاب نہیں تو اور کیا ہوگی؟

(5)چوں کہ شبینہ قرآن صبح صادق سےاتنے پہلے ختم کرنا ہوتاہےکہ لوگ سحری کھاکر حقہ پان  بھی کرسکیں۔اس لئے نہایت تیز پڑھنے والےحفاظ تلاش کئےجاتےہیں اور یہ حفاظ بالعموم قرآن ایسا پڑھتے ہیں کہ سننے والوں کوکچھ پتہ نہیں چلتا کہ یہ کیاپڑھ رہے ہیں!

ہاں آیتوں کےآخر ی الفاظ یارکوع میں جانے کےقریب ایک آدھ آیت صاف ضرور پڑھ دیتے ہیں۔ اورظاہر ہےکہ اس طرح قرآن پڑھنا درست ہےحضرت عبداللہ بن مسعود ﷜ نےجلد اور بہت تیز پڑھنے والے شخص سےبطور انکار فرمایا:

أهذاكهذالشعر ونثراكثرالأقل؟(ابوداود وغيره) حديث1396

(6)الله تعالى کےنزدیک وہ عبادت مقبول ومحبوب اورپسندیدہ ہےجس پر مداومت کی جائے اورباعث ملال وکبید گی خاطر نہ ہو اور ایک رات میں ختم کرنے والے حفاظ اور ان کے پیچھے دوچار شریک نماز ہونے والےتکان وپریشان کی وجہ سے اس پر ہمیشگی تودرکنار دوسری رات اس کانام لینےکےلئے بھی تیار نہیں ہوتے بلکہ دن بھر خوب سوتے ہیں اورتکان مٹاتے ہیں۔اپنے کام کاج کرنےکےلائق نہیں رہ جاتے اس لئے ائمہ کےنزدیک رات بھر عبادت کرناباعث ملال ہو مکروہ ہے۔

(7)بعض سلف سےایک رات میں قرآن ختم کرنامنقول ہےلیکن  ہمائےلئےحجت آں حضرت ﷺ کاقول وعمل ہے۔آں حضرت ﷺ کےمخالف قول وعمل ہمارےلئے حجتت تودرکنار قابل التفات بھی نہیں ہے ونیز ان کوایسا کرنے سےرنج وملال کبید گی لاحق نہیں ہوتی تھی وہ اس ہمیشگی کرتے تھے اورگھبرا کرچھوڑ نہیں دیتے تھے۔اس لئے نووی فرماتے ہیں۔قَالَ النَّوَوِيُّ وَالِاخْتِيَارُ أَنَّ ذَلِكَ يَخْتَلِفُ بِالْأَشْخَاصِ فَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الْفَهْمِ وَتَدْقِيقِ الْفِكْر مَنْ كَانَ لَهُ شُغْلٌ بِالْعِلْمِ أَوْ غَيْرِهِ مِنْ مُهِمَّاتِ الدِّينِ وَمَصَالِحِ الْمُسْلِمِينَ الْعَامَّةِ يُسْتَحَبُّ لَهُ أَنْ يَقْتَصِرَ مِنْهُ مَا أَمْكَنَهُ مِنْ غَيْرِ خُرُوجٍ إِلَى الْمَلَلِ وَلَا يَقْرَؤُهُ(فتح الباری9/96)

اور اس کی اصل عبارت یوں ہے: قَالَ النَّوَوِيُّ وَالِاخْتِيَارُ أَنَّ ذَلِكَ يَخْتَلِفُ بِالْأَشْخَاصِ فَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الْفَهْمِ وَتَدْقِيقِ الْفِكْرِ اسْتُحِبَّ لَهُ أَنْ يَقْتَصِرَ عَلَى الْقَدْرِ الَّذِي لَا يَخْتَلُّ بِهِ الْمَقْصُودُ مِنَ التَّدَبُّرِ وَاسْتِخْرَاجِ الْمَعَانِي وَكَذَا مَنْ كَانَ لَهُ شُغْلٌ بِالْعِلْمِ أَوْ غَيْرِهِ مِنْ مُهِمَّاتِ الدِّينِ وَمَصَالِحِ الْمُسْلِمِينَ الْعَامَّةِ يُسْتَحَبُّ لَهُ أَنْ يَقْتَصِرَ مِنْهُ عَلَى الْقَدْرِ الَّذِي لَا يُخِلُّ بِمَا هُوَ فِيهِ وَمَنْ لَمْ يَكُنْ كَذَلِكَ فَالْأَوْلَى لَهُ الِاسْتِكْثَارُ مَا أَمْكَنَهُ مِنْ غَيْرِ خُرُوجٍ إِلَى الْمَلَلِ وَلَا يَقْرَؤُهُ هَذْرَمَةً(فتح الباری9/97)

لیکن بہرحال ہم پابند ہیں اسوہ رسول پرچلنے کےاوراسوہ رسول عملا وقولا شبینہ مروجہ کےخلاف ہے۔مکتوب

٭ان مخصوص حالات میں 8رکعت تراویح مسنونہ کی نیت سے اور بقیہ 12رکعت مطلق نفل کی نیت سےاس طرح ان کےساتھ باجماعت کل بیس رکعت اور انہیں جیسی وتر پڑھنے میں مضائقہ اورحرج نہیں۔دعاقنوت وتر میں رکوع سے پہلے جائز اوردرست ہے۔رکعت وتر میں امام کی بیعت میں دورکعت  کےبعد بیٹھنا(قعدہ) متعین ہے۔ اورالگ وتر پڑھنےسے اچہایہ ہےکہجماعت کےساتھ ادا کی جائے ۔ واللہ اعلم

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب الصیام

صفحہ نمبر 151

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ