السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بکر کہتاہےکہ نماز عیدین سےپہلے وعظ ونصیحت وخطبہ دینا جائز اور بدعت ہے۔اورزید کہتاہےکہ نماز عیدین سےپہلے بھی وعظ ونصیحت وخطبہ دینا جائز ہے؟لیکن زید اس پرکوئی دلیل نہیں ،پیش کرتا۔ دونوں میں کسی کاقول صحیح ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
تمام احادیث مرفوعہ سےعیدین کی نماز کےبعد ہی وعظ ونصیحت کرناثابت ہے۔کسی ضعیف سےضعیف حدیث میں بھی قبل نماز کےوعظ ونصیحت کرنامذکورنہیں، پس سنت اورشرعی طریقہ یہی ہےکہ عیدین کی نماز کےبعد ہی خطبہ مروجہ اوروعظ کہاجائے ۔
بنوامیہ کےبعض افراد کےعلاوہ تمام امت کااس پرعملا اورقولاً اتفاق ہے كما قال ابن رشد فى البداية، وابوالوليد الباجى فى المنقىى ، وابن المنذر والعراقى وابن قدامة فى المغنى وغيرهم –
ابن قدامہ نےنماز سےپہلے خطبہ دینے کےبدعت ہونے کی اورفقہاء ،شافعیہ نےاس کےحرام ہونے کی تصریح کردی ہے۔ابن قدامہ نےخطبہ قبل الصلوۃ کوکالعدم قراردیا ہے۔البتہ حنفیہ اورمالکیہ اس کومحض مکروہ کہتےہیں ، درانحالیکہ ان کو اقرارہےکہ آنحضرت ﷺ کادائمی طریقہ تقدیم صلوۃ علی الخطبہ تھا۔ مسلم شریف کی روایت سےمعلوم ہوتاہےکہ نماز سےپہلے خطبہ دینا مروان کی بدعت ہے۔
بہرحال ہمارے نزدیک بکر کایہ قول صحیح ہےکہ نماز عیدین سےپہلے وعظ ونصیحت کرنایامروجہ خطبہ دینا بدعت ہے۔واللہ اعلم ۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب