السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک صاحب نے مجھے یہ دعا بتلائی اورہدایت کی کہ اس دعا کوبعد نمازظہر یابعد نماز عصر گیارہ مرتبہ پڑھاکرو، اس کے بڑےفضائل ہیں وردررکھنے سےخود معلوم ہوجائے گا لیکن مجھے اس دعا کےپڑھنے میں تامل ہےدعا یہ ہے:اللهم صل صلوة كاملة وسلم سلاما تاما على سيدنا محمد ، تنحل به العقد وتنفرج به الكرب وتقضى به الحوائج وتنال به الرغائب وحسن الخواتم ويستسقى الغمام بوجه الكريم ، وعلى آله واصحابه فى كل لمحة ونفس بعدد كل معلوم لك کیا اس دعا کاصحیح حدیث میں ذکر آیا ہے.؟ اگر ہوتوکتاب کاحوالہ دیں اوراگر نہ ہوتو پڑھنا جائز ہے یا نہیں ؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سوال میں مذکورہ درود کاذکر کسی حدیث میں نہیں آیا ہے اور میرےنزدیک اسکاپڑھنا درست نہیں ۔
(1) قرآن کریم میں پیغمبر پرصلوۃ وسلام بھیجنے کاحکم نازل ہوا، توصحابہ کرام نےآں حضرت ﷺ سےصلوۃ وسلام کےالفاظ دریافت کئے ،اور آپﷺ جواب میں جو طریقہ اورالفاظ بتائے وہ کتب حدیث میں مشہور ومعروف ہین ۔خود پیغمبر کےبتائے ہوئےطریقہ اور الفاظ سےبہتر اورکون سےالفاظ ہوسکتے ہیں ! اس کےبعد اپنی طرف سے الفاظ گھڑنےکی ضرورت نہیں رہتی ۔
(2) اس مذکورہ صلوۃ وسلام میں چاجگہ لفظ ’’بہ ، ، مذکور ہےاس لفظ میں ضمیر کامرجع بھی ’’ يستسقى الغمام بوجه الكريم،، کی مناسبت اوررعایت کی وجہ سے لفظ ’’ محمد،، ہوگا۔ اورجس طرح یہ جملہ محمدکی صفت ہےاسی طرح اس سے پہلے کےچاروں جملے بھی محمد کی صفت ہوں گےاوراس صورت میں ان جملوں کامعنی یہ ہوگا : اے اللہ سیدنا محمد ﷺ پرکامل اورتام صلوۃ وسلام نازل فرماجن کی ذات کے ذریعہ مشکلات حل ہوتی ہیں ، گرہیں کھل جاتی ہیں،مصائب دورہوتےہیں ۔حاجتیں پوری ہوتی ہیں ۔ مقاصد اورتمنائیں برآتی ہیں اورحسن خاتمہ حاصل ہوتاہے اورجن کےروئے مکرم یاذات گرامی کےذریعہ بارش مانگی جاتی ہے۔لیکن یہ کھلی ہوئی حقیقت ہےکہ مشکلات حل کرنےوالا ، مصائب وغم دورکرنےوالا ،قاضی الحاجات ،مرادوں اورتمناؤں کابرلانے والا اورحسن خاتمہ کی توفیق دینےوالا صرف اللہ تعالیٰ ہ ے، اور یہ امور اسی کی ذات سےاوابستہ ہیں۔ نہ کسی پیغمبر یاولی یاپیر سے۔ پس چوں کہ یہ الفاظ موہم شرک ہیں اس لیے نہیں پڑھنے چاہیں۔
(3) ’’ وابيض يستسقى الغمام بوجهه ،، ( السيرةالنبوية لابن هشام 2/276). آپ
کے چچا ابوطالب کےایک طویل قصیدہ کامصرع ہے۔اور یہ کسی معتبر صحیح روایت سےثابت نہیں کہ آپ ﷺ نےاس مصرع کوسن کراس کی تحسین فرمائی ہویا اظہار مسرت کیا ہویا کم از کم سکوت ہی فرمایا ہواوربیہفی کی جس روایت میں اس کاذکر آیا ہےوہ ناقابل اعتبار ہے ۔ اس کی سند میں مسلم ملائی متروک واضع حدیث موجودہے۔پس اس غیرثابت جملہ کاذکر مناسب نہیں ہے۔
(4) اوراگر ثابت بھی ہو،تب بھی اب اس جملہ کاذکر اس لیے مناسب نہیں کہ بظاہر اس کامعنی یہ ہےکہ آپ کادعا کےذریعہ بارش طلب کی جاتی ہے ، اورچوں کہ آپ ﷺ کےارتحال کےبعد آپ کی دعا باقی نہیں ، اس لیے اب اس کےکہنے کاکوئی مطلب نہیں کہ آپ ﷺ کی دعا کےذریعہ بارش مانگی جاتی ہے۔پیغمبر پرصلوۃ وسلام بھیجنا ایک عبادت اورنیک عمل ہے اوراپنے اعمال حسنہ کےساتھ توسل بلاشبہ جائز ہے۔ جیسا کہ اصحاب غارنے اپنے نیک عمل کوسیلہ بنایا اوراس کےذریعہ غار کےمنہ سےپتھر ہٹ گیا اور ان کی یہ مصیبت دور ہوگئی ۔اسی طرح نیک عمل (دورد وسلام) کی برکت سےمرادیں اورتمنائیں برآسکتی ہیں ۔لیکن اس کےالفاظ وہی ہونے چاہییں جومعتبر روایت سےثابت ہوں یاکم از کم شرک وبدعت کے شائبہ سےپاک ہوں ۔ توسل بالصلوۃ کی حدیثیں ترمذی ،ابن ماجہ میں عبداللہ بن ابی اوفی سے۔ اورترمذ ی میں ابی بن کعب سے ۔اورابوداؤد نسائی میں فضالہ بن غبید ۔ اورترمذی میں ابن مسعود سےمروی ہے۔ (مصباح بستی شوال وذی القعدہ 1371ھ)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب