میر ے اور بعض نماز ی بھا ئیوں کے درمیا ن اس مسئلہ میں جھگڑا پیدا ہو گیا کہ جب انسا ن مسجد میں دا خل ہو اور امام خطبہ دے رہا ہو تو کیا تحیۃ المسجد کی دو رکعتیں پڑ ھنی چا ہئیں یا نہیں لہذا آپ سے درخوا ست ہے کہ برا ہ کر م فتوی دیں کیا اس حا لت میں دو رکعتیں پڑ ھنا جا ئز ہے یا نہیں ؟ یا د رہے کہ مذکو رہ نماز ی جنہوں نے مجھ سے اختلا ف کیا وہ مالکی یعنی امام مالک کے مذہب کے مقلد ہیں ؟
سنت یہ ہے کہ آدمی جب مسجد میں دا خل ہو تو تحیۃ المسجد کی دو رکعتیں پڑ ھے خوا ہ امام خطبہ ہی کیو ں نہ دے رہا ہو کیو نکہ نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم کا ار شا د ہے :
"جب تم میں سے کو ئی مسجد میں داخل ہو تو وہ اس وقت تک نہ بیٹھے جب تک دو رکعتیں نہ پڑ ھ لے ۔"
نیز صحیح مسلم میں حضرت جا بر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا :
"جب تم میں سے کو ئی جمعہ کے دن اس وقت آئے جب امام خطبہ دے رہا ہو تو وہ بھی دو رکعتیں پڑ ھے اور انہیں مختصر طو ر پر پڑ ھے ۔"یہ حدیث اس مسئلہ میں نص صریح ہے اور کسی کے لئے یہ جا ئز نہیں کہ اس کی مخا لفت کر ے شا ید امام مالک رحمۃ اللہ علیہ تک یہ سنت نہ پہنچی ہو اگر ان سے یہ ثا بت ہے کہ انہو ں نے بوقت خطبہ ان دو رکعتوں سے منع فرمایا ہے لیکن جب صحیح سند سے یہ ثا بت ہے کہ یہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے تو پھر کسی بھی شخص کے قو ل کی وجہ سے خوا ہ وہ کو ئی بھی ہو اس سنت کی مخالفت کر نا جا ئز نہیں ہے کیو نکہ ارشا د با ر ی تعا لیٰ ہے :
"مو منو !اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فر ما ں بر داری کر و اور جو تم میں سے صا حب حکو مت ہیں ان کی بھی اور اگر کسی با ت میں تمہا رے درمیا ن اختلا ف واقع ہو تو اگر اللہ اور رو ز آخرت پر ایما ن رکھتے ہو تو اس میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم (کے حکم )کی طرف رجو ع کر و یہ بہت اچھی با ت ہے اور اس کا انجا م بھی اچھا ہے ۔''
نیز فرمایا :
"اور تم جس با ت میں اختلا ف کر تے ہو اس کا فیصلہ اللہ کی طرف (سے ہو گا )"
اور یہ با ت معلو م ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم اللہ عزوجل ہی کا حکم ہے کیو نکہ ارشا د با ر ی تعا لیٰ ہے :