ہما ر ے ہا ں اس مسئلہ میں اختلا ف ہے کہ خطبہ جمعہ کا ہما ری ملکی زبا ن مین تر جمہ جا ئز ہے یا نہیں ؟ کچھ لو گ اسے جا ئز بتا تے ہیں اور کچھ ناجا ئز تو سوال یہ ہے کہ اس مسئلہ میں شر عی حکم کیا ہے ؟(فید ونا افا د کم اللہ ؟
علما ء کر ا م علیہ السلام کا جمعہ و عید ین کے خطبوں کے عجمی زبانوں میں تر جموں کے با ر ے میں اختلا ف ہے اہل علم کی ایک جما عت کے نزدیک یہ ممنو ع ہے اور انہو ں نے اسے ممنو ع قرار دیا ہے تا کہ عر بی زبان باقی رہے اس کی حفا ظت ہو سکے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحا بہ کر ا م رضوان اللہ عنہم اجمعین کے طر یقہ کے مطا بق خطبے عر بی میں دیئے جایئں خو اہ عجمی مما لک ہو یا غیر عجمی اور پھر عر بی زبا ن میں خطبہ دینے سے لو گو ں میں عربی ز با ن سیکھنے کا شو ق بھی پیدا ہو گا ۔ دیگر اہل علم کا نقطہ نظر یہ ہے کہ خطبو ں کا عر بی زبا ن میں تر جمہ بھی جا ئز ہے جب کہ سا معین یا ان کی اکثر یت عر بی زبا ن نہ جا نتی ہو تا کہ وہ مقصود حاصل ہو سکے جس کے لئے جمعہ کا حکم ہے اور وہ یہ کہ لو گو ں تک اللہ تعا لیٰ کی مقرر کر دہ شر یعت کے اوا مر اور نو اہی کو پہنچا دیا جا ئے اخلا ق کر یمہ اور صفات حمیدہ کی تلقین کی جا ئے اور ان کی خلاف ورزی سے بچنے کی تنبیہ کی جا ئے اور اس میں قطعاً کو ئی شک نہیں کہ الفا ظ و رسو م کی پا بند ی کی بجا ئے معا فی و مقا صد کی پا بندی زیا دہ افضل اور زیا دہ وا جب ہے خصوصاً جب کہ سا معین عر بی زبا ن کا اہتما م کر نے وا لے نہ ہو ں اور خطیب کا عر بی میں خطبہ بھی ان میں عر بی زبا ن کے سیکھنے کا شوق پیدا نہ کر ے تو اس سے مقصو د حا صل نہ ہو گا اور عر بی زبا ن میں خطبہ کے بقاء کا مطلوب حا صل نہ ہو گا تو اس سے غو ر کر نے وا لے کے سا منے یہ با ت ظا ہر ہو تی ہے کہ سا معین میں مر و ج ان زبا نو ں میں خطبہ جن کو وہ جا نتے ہو ں اور جن سے وہ معنی و مراد کو سمجھ جا تے ہو ں زیا دہ موز وں اور لا ئق اتبا ع ہے خصو صاً جب کہ تر جمہ نہ کر نے سے نزا ع اور جھگڑ ے کے پیدا ہو نے کا بھی اند یشہ ہو تو اس سے معلوم ہو ا کہ اس میں کو ئی شک نہیں کہ ان حا لات میں حصول مصلحت اور دفع مفسدت کے لئے تر جمہ ضروری ہے ۔ اگر سا معین میں کچھ لوگ عر بی جا ننے وا لے بھی ہو ں تو پھر خطیب کے لئے مو زو ں یہ ہے کہ وہ دو نو ں زبا نو ں کو استعما ل کر ے خطیب خطبہ عر بی زبان میں دے اور پھر دوسری زبان میں جسے سا معین سمجھتے ہوں دو ہرا ئے اس سے دو نو ں مصلحتیں جمع ہو جا ئیں گی ہر طرح کی مضر ت کی نفی ہو جا ئے گی اور سا معین میں ہر طرح کا نزا ع بھی ختم ہو جا ئے گا ۔ شر یعت مطہر ہ کے بہت سے دلائل سے یہی ثا بت ہو تا ہے ان میں سے ایک دلیل تو یہی ہے جو بیا ن کی جا چکی ہے کہ خطبہ سے مقصود سا معین کو نفع پہنچا نا اللہ تعا لیٰ کے حقو ق یا د دلانا اس کی طرف دعوت دینا اور انہیں ان امو ر کے ارتکا ب سے ڈرانا ہے جن سے اللہ تعا لیٰ نے منع فرمایا ہے اور یہ مقصد اسی صورت میں حاصل ہو سکتا ہے کہ خطبہ میں ایسی زبا ن استعما ل کی جا ئے جسے سا معین سمجھتے ہو ں دوسر ی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام رسو لو ں کو ان کی قو موں کی ز با نو ں کے ساتھ معبو ث فر ما یا تا کہ وہ ان کی زبا نو ں میں ان تک اللہ تعا لیٰ کی مراد کو پہنچا دیں جیسا کہ ارشا د با ر ی تعالیٰ ہے :
"اور ہم نے کو ئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر (وہ ) اپنی قو م کی زبا ن بو لتا تھا تا کہ انہیں (احکا م الٰہی ) کھو ل کھو ل کر بتا دے نیز فر ما یا :